غیر آئے پیچھے پا گئے مجرے کا بار پہلے
Appearance
غیر آئے پیچھے پا گئے مجرے کا بار پہلے
ہم آہ بیٹھے رہ گئے آئے ہزار پہلے
میں عرض حال اس سے کیوں کر کروں مکرر
کوئی بول بھی سکے ہے واں ایک بار پہلے
گر جانتے کہ آخر خواہان جاں تو ہوگا
دل دیتے پیچھے جی کو کرتے نثار پہلے
جانا نہ تھا پریشاں کر دے گی تو وگرنہ
ہم پیچ میں بھی آتے اے زلف یار پہلے
مقتل میں جب وہ قاتل تروار لے کے آیا
کہنے لگا حضور آ لے تو ہی وار پہلے
میں سر جھکا کے آگے پہنچا ہے اور کیا عرض
اس سے بھی کچھ ہے بہتر حاضر ہوں یار پہلے
تب دیکھ دیکھ بولا ترسا کے مارنا ہے
نیں مارنے کا تجھ کو میں زینہار پہلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |