فتنہ گر کیا مکان سے نکلا
Appearance
فتنہ گر کیا مکان سے نکلا
آسماں آسمان سے نکلا
دل میں رہنے نہ دوں ترا شکوہ
دل میں آیا زبان سے نکلا
وہم آتے ہیں دیکھیے کیا ہو
وہ اکیلا مکان سے نکلا
سچ تو یہ ہے معاملہ دل کا
باہر اپنے گمان سے نکلا
میرے آنسو کی اس نے کی تعریف
خوب موتی یہ کان سے نکلا
ہم کھڑے تم سے باتیں کرتے تھے
غیر کیوں درمیان سے نکلا
ذکر اہل وفا کا جب آیا
داغؔ ان کی زبان سے نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |