فتنۂ روزگار کی باتیں
Appearance
فتنۂ روزگار کی باتیں
ایسی ہیں جیسے یار کی باتیں
ہجر میں وصل یار کی باتیں
ہیں خزاں میں بہار کی باتیں
لالہ و گل کے ذکر سے بہتر
ایک جان بہار کی باتیں
چھیڑ کے ساتھ نوک جھوک بھی ہے
گل سے ہوتی ہیں خار کی باتیں
سب سمجھتے ہیں میں کہوں نہ کہوں
اس دل بے قرار کی باتیں
چھیڑ دیتا ہوں دل لگی کے لئے
وصل میں انتظار کی باتیں
جو نہ تم روٹھتے تو کر لیتے
اور دو چار پیار کی باتیں
ننگ ہیں عزم مستقل کے لئے
دہر نا پائیدار کی باتیں
دل نشیں ہیں بسنت میں کیفیؔ
یہ شراب و خمار کی باتیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |