فراق دہلوی کے سفرنامہ کا ایک ورق
دوست دشمن کو ترے ناز نے اکثر مارا
ایک ہی وار میں دونوں کو برابر مارا
جب سیاح بمبئی سے جی آئی پی ریلوے میں ناسک ہوکر جبل پور، الہ آباد، بنارس کی طرف بڑھتا ہے، تونند گاؤں اسٹیشن سے اسے ریلوے کی دوسری شاخ پر سوار ہونا پڑتا ہے جو اورنگ آباد دکن کو جاتی ہے اور اسی ریلوے کے ذریعہ سے دولت آباد کا قلعہ اور ایلورا کے غار دیکھ سکتا ہے۔ ایلورا کے غاروں میں جو بت خانہ اور تصویریں اور مورتیں پتھر میں کندہ ہیں، یا جو مورتیں بت خانوں کی دیوارو در پر تراشیدہ ہیں، انہیں دیکھ کر مجھ جیسے ناتراشیدہ اور جاہل ہندوستانی اتنے ہی خوش ہوتے ہیں، جیسے دیوالی کے کھلونوں اور عید بقرعید والے دن کمہار کی بنائی ہوئی مورتوں کو دیکھ کر بچے خوش ہوتے ہیں۔
پس اتنا جان لینا کہ یہ مٹی کا ہاتھی اور یہ مٹی کا مور اور مرغا ہے، ہدف مارنا ہے۔ لِم پر کوئی اللہ کا بندہ غور نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ ٹوٹی پھوٹی تاریخ میں یہ دیکھ لینا کافی ہے کہ ایجنٹا اور ایلورا اور گھارا پوری میں بت خانہ ہیں۔ وہ سب بدھ دیوتا کی یادگار ہیں۔ مگر انہیں بسنت کی خبر نہیں۔ وہ انگریزی تاریخ اور جغرافیہ کی کتابیں مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان مقامات میں سب بدھ دیوتا کی یادگار تصویریں اور مورتیں نہیں۔ بلکہ ان میں جین مت، بعض برہمنی مت اور بعض بدھ مت کی یادگار ہیں۔ اور ان کے بنانے اور تراشنے میں سیکڑوں برس کا فاصلہ ہے۔ جب آپ ایجنٹا کے غار میں داخل ہوں گے تو علاوہ اور سنگین مرقعوں کے، غار کی دیوار پر ایک مجلس کا نقشہ دیکھیں گے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک نوجوان جو کلے ٹھلے کا انسان ہے، مسند پر غنج و دلال کے ساتھ بیٹھا ہے۔ ایرانی لباس پہن رہا ہے۔ ا س کے سر پر ایک پگڑی نما ٹوپی ایسی ہے جیسی کبھی یوروپین لوگ رات کو موٹے اور گول کناروں کی پہنا کرتے تھے۔ اس نوجوان کی داڑھی چھوٹی چھوٹی ہے اور مونچھیں بھی کچھ زیادہ بڑی نہیں ہیں۔ آنکھیں بڑی بڑی اوبھرے پپوٹوں کی ہیں، جو کہتی ہیں کہ آل تیمور کی جو چشم مخمور کہلاتی ہے وہ ہماری یگانگت کی خبر دیتی ہے۔
نوجوان کے ہاتھ میں ایک چوکور پیالہ ہے اور اس کے سیدھے پہلو میں ایک نازنین گل اندام بیٹھی ہے۔ نازنین کابھی زنانہ ایرانی لباس ہے۔ خصوصاً اس کے گلے میں ایک کرتی ہے، جس کے سردست دو تین چوڑیاں چمک رہی ہیں۔ اس نازنین کے کانوں میں بھی چھوٹی چھوٹی بالیاں ہیں۔ اس کی ناک میں بلاق ہے جو نیچے کے ہونٹ پر پڑا ہوا ہے اور لاکھ لاکھ بناؤ کر رہا ہے۔ نازنین کی چوٹی کسی ہوئی ہے۔ مانگ نکلی ہوئی ہے اور اس کے چہرے پر امارت اور حسن و جمال کی ایسی جھلک ہے جسے کچھ دیر دیکھنے سے ایک عاشق مزاج اپنا گریبان چاک کر سکتا ہے،
مکھڑا یہ غضب زلف سیہ فام یہ کافر
کیا خاک جئے کوئی شب ایسی سحر ایسی
اور ان محب و محبوب کے دونوں طرف دو ایرانی کنیزیں کھڑی ہیں، جو ایک پشواز نما جامہ پہن رہی ہیں۔ جس کے نیچے کا حصہ اس زمانہ کے کھڑے پایچہ سے ملتا جلتا ہے، جو دلی میں عورتیں پہننے لگی ہیں۔ پائچوں میں جھالر لگی ہے، جس کی چنت چنت الگ دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح اس آقا اور پہلو نشین بیگم کے چہروں پر شان بادشاہی عیاں ہو رہی ہے، اسی طرح ان کنیزوں کے تمام اعضاء سے لونڈی پن کے آداب ظاہر ہو رہے ہیں۔ ان دونوں کے ہاتھ میں ایک ایک شیشہ ہے، جس کے اندر بادہ مرد افگن ہے۔ مسند کے نیچے دو غلام ایرانی کپڑے پہنے موٹے کناروں کی ٹوپی سر پر رکھے نگاہیں نیچے کئے دو قابیں ہاتھوں میں لئے بیٹھے ہیں، جن کے اندر گزک اور نفل ہیں۔ اس پتھر کے مرقع کے چاروں کونوں پر کچھ پھولوں کے درخت ہیں اور ایک کونے کے پھولوں کو دوہنس نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ اس لئے ان کی لمبی گردن کا مروڑ کھل گیا ہے اور گردن سیدھی ہو رہی ہے۔
اس ہیئت خاص کو دیکھ کر ایک عاقل دنگ ہو جاتا ہے اور اس کادل کہتا ہے کہ مانی و بہزاد کے مو قلم میں ضرور یہ لچک ہے کہ کہ ہاتھی دانت کے بیضہ یا کاغذ کی سطح پر جیسی چاہے تصویر بنا دے۔ اس وقت میں فوٹو کا کیمرہ ایسا نکلا جو پلیٹ پر ہر چیز کا عکس جما دیتا ہے اور مصالحہ پر جوں کی توں صورت اتر آتی ہے، مگر آفرین ہے ہندوستان کے اگلے سنگ تراشوں پر جو سنگ خارا پر لوہے کے معمولی اوزاروں سے ایسی تصویریں بناتے تھے، جو مانی و بہزاد اور فوٹوگرافروں کو پرے بٹھاتے تھے۔ ایلورا، اجنٹا کے بت خانے حضرت مسیح سے دو سو برس پہلے کے ہیں، مگر اس مرقع کی عمر تقریباً تیرہ سو برس سے زیادہ کی نہیں ہے۔ مسٹر فرنگسن لکھتے ہیں کہ دراصل یہ مرقع خسرو پرویز اور اس کی معشوقہ شیریں کا ہے۔
اجنٹا کے غار خسرو کے عہد میں ایک دکن کے راجہ کے قبضہ میں تھے اور اس راجہ کا خسرو پرویز بادشاہ ایران سے بڑا دوستانہ تھا۔ خسرو پرویز نے اپنی اور شیریں کی مجلس آرائی کا یہ مرقع اپنے دوست دکن کے راجہ کو ایک ایلچی کے ہاتھ بھیجا تھا۔ راجہ نے یہ تصویر اپنے ہاں کے سنگ تراشوں کو دی، اور انہیں حکم دیا کہ اسے اجنٹا کے غار میں ایسا بناؤ کہ اصل نقل میں فرق نہ رہے۔ جب کاریگروں نے یہ مرقع پتھر کی دیوار پر اتار کر ٹھیک کیا تو دکن کا راجہ معہ ایرانی سفیر کے ایجنٹا گیا اور دیکھا کہ فی الواقع سارا نقشہ اور تصویریں ہو بہو پتھر پر کھدی ہوئی ہیں۔ مگر اس میں یہ خوبی بڑھی ہوئی ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو رہا ہے کہ خسرو اور شیریں زندہ بیٹھے ہیں اور اب منہ سے بول اٹھیں گے۔ بادشاہ ایرا ن کا سفیر ہندو نقاشوں کا یہ کام دیکھ کر حیران ہو گیا اور سوائے اس کے اس کے منہ سے اور کچھ نہ نکلا کہ ’’بہ یزدان پاک بہ یزدان پاک ایں نیرنگ ست۔‘‘
سفیر ایران جب واپس ہو کر مداین پہنچا تو اس نے خسرو پرویز سے دکن کے راجہ کی یہ قدردانی اور وہاں کے کاریگروں کی یہ انوکھی کاریگری بیان کی تو خسرو بہت خو ش ہوا۔ اور اس نے راجہ کو بڑا شکریہ لکھا۔ یہ وہی خسرو پرویز ہے، جس کے آگے ہمارے حضور پر نور خاتم المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نامہ مبارک ایلچی نے پیش کیا تو اس نے بات پر چڑھ کر چاک کر ڈالا کہ ہمارے نام سے پہلے اس شخص (محمدؐ) نے اپنا نام کیوں لکھا اور جس وقت حضور نے اس گستاخی کو سنا تو آپ نے فرمایا، الہٰی اس گستاخ کو اس کے کردار کا بدلا چکھا دے اور اس کے بیٹے شرویہ نے خسرو کے پیٹ کو چاک کر کے اس کا کام تمام کر دیا۔ اور یہ بی شیریں بھی وہی ہیں، جن کی داستان عشق کو حضرت مولانا گنجوی قدس سرہٗ العزیز نے نظم کردیا ہے۔ یہ وہی شیریں جان ہیں، جن کی الفت نے فرہاد کو دیوانہ بنایا اور تیشہ سے ہلاک کروایا۔ مگر فرہاد کے تیشہ نے شیریں کو بھی مزہ چکھا دیا۔
جب شرویہ باپ کو مار چکا تو اس نے شیریں سے کہا، آپ جانتی ہیں ہم زر تشتی مذہب رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنی سگی ماں سے نکاح جائز ہے اور آپ تو میری سوتیلی ماں ہیں۔ اور میرا دل مدت سے آپ کی زلف گرہ گیر میں پھنسا ہوا ہے۔ اس لئے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ جشن شادی کی کوئی تاریخ مقرر کیجئے۔ شیریں نے کہا کیا مضائقہ ہے۔ جشن کی تیاری کی جائے۔ آج شب کومجھے اس دخمہ (تہ خانہ) میں پہنچوا دو۔ میں تمہارے باپ کے تابوت کی زیارت کر کے رخصت ہو لوں۔ جب رات ہوئی تو شیریں نہا دھو، سنگار کر کے عطر اور خوشبو میں بس کر اس تہ خانہ میں پہنچی، جس میں خسرو اور خسرو کے بڑوں کے تابوت رکھے ہوئے تھے۔
بہت سی شمع روشن تھیں۔ بخور جل رہی تھی۔ شمع کے گرم گرم آنسو بہہ بہہ کر کہتے تھے۔ دنیا فانی ہے۔ دنیا کی بادشاہی فانی ہے۔ دنیا کے عیش و نشاط فانی ہیں۔ شیریں نے ساتھ کی کنیزوں سے کہا، تم تہہ خانے کے باہر جاؤ۔ جب تہہ خانہ میں تخلیہ ہو گیا تو شیریں نے اندر سے تہ خانہ کا دروازہ بند کیا۔ خسرو کے تابوت کا ڈھکنا اٹھایا۔ مردہ کے منہ سے کفن سرکایا اور اسے نگاہ شوق سے دیکھ کر پھر دساتیر کی اس نے دعائیں پڑھ کر خسرو کی روح کو بخشیں۔ پھر ا س نے مردہ خسرو سے کہا، اے میرے حسن و جمال کے قدرداں! اے میرے چاہنے والے! اے میرے خاوند اور خداوند!! تیرا بیٹا مجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ زر تشتی مذہب میں یہ ہر طرح جائز ہے، مگر میرا رومی خون ہے، جو میری رگوں میں چکر کھا کر مجھ سے کہتا ہے کہ تو پتی ورتا ہے۔ تو شوہر پرست ہے۔ یہ کب ہو سکتا ہے کہ تجھے خسرو کے سوائے کوئی اور دوسرا مرد ہاتھ لگائے۔ بیشک نہیں ہوسکتا۔ دیکھ میں تیری محبت میں اپنی عصمت بچانے کے لئے اسی طرح اپنی جان دیتی ہوں، جس طرح تیری جان لی گئی ہے۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا خنجر آبدار اپنے پیٹ میں گھنگول لیا اور خسرو کے تابوت پر اوندھی گر کر جان شیریں خدا کو سونپ دی۔ اے عشق! تیرے زور شور جیسے تیرہ سو برس پہلے تھے اب بھی بدستور ہیں۔ دن رات تیرا خنجر چلتا ہے۔ نامرادوں کی جانیں جاتی ہیں، نہ تجھ سے کوئی جیتا، نہ آگے کوئی جیتےگا۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |