فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر
Appearance
فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر
واں خون کی ہوس ہے نہیں آرزوئے شیر
ہے اس جواں کی بات میں اب تو لہو کی باس
وے دن گئے کہ آتی تھی اس منہ سے بوئے شیر
ہوتے ہی صبح آہ گیا ماہ چار دہ
ثابت ہوا مجھے کہ نمک ہے عدوئے شیر
حسرت ہی دل میں کوہ کن آخر یہ لے گیا
شیریں نے اپنی آنکھوں بھی دیکھا نہ روئے شیر
اس دودھ کا خدا کرے کاسہ ہمیں نصیب
جنت میں پنج تن کی جو بہتی ہے جوئے شیر
عاشق ہیں اپنے خون جگر خوار زہر نوش
رغبت طرف شکر کے ہے ان کو نہ سوئے شیر
جن کو بغیر سعی وہ شیریں دہن ملے
کھو دیں نہ کوہ وہ نہ کریں جستجوئے شیر
ملتے ہی اس سے دل کی گرہ میرے کھل گئی
عقدے شکر کے جیسے کھلیں روبروئے شیر
پھر دودھ کی بڑھاپے میں آوے نہ منہ سے باس
آخر کہاں تلک یہ بیاںؔ گفتگوئے شیر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |