Jump to content

فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے

From Wikisource
فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
by اختر علی اختر
318206فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہےاختر علی اختر

فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
نقاب اٹھاؤ کہ کچھ دن ذرا بہار رہے

خراب شوق رہے وقف انتظار رہے
اب اور کیا ترے وعدوں کا اعتبار رہے

میں راز عشق کو رسوا کروں معاذ اللہ
یہ بات اور ہے دل پر نہ اختیار رہے

چمن میں رکھ تو رہا ہوں بنا نشیمن کی
خدا کرے کہ زمانہ بھی سازگار رہے

جنوں کا رخ ہے حریم حیات کی جانب
الٰہی پردۂ اوہام اعتبار رہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.