فساد دنیا مٹا چکے ہیں حصول ہستی مٹا چکے ہیں
فساد دنیا مٹا چکے ہیں حصول ہستی مٹا چکے ہیں
خدائی اپنے میں پا چکے ہیں مجھے گلے یہ لگا چکے ہیں
نہیں نزاکت سے ہم میں طاقت اٹھائیں جو ناز حور جنت
کہ ناز شمشیر پر نزاکت ہم اپنے سر پر اٹھا چکے ہیں
نجات ہو یا سزا ہو میری ملے جہنم کہ پاؤں جنت
ہم اب تو ان کے قدم پہ اپنا گنہ بھرا سر جھکا چکے ہیں
نہیں زباں میں ہے اتنی طاقت جو شکر لائیں بجا ہم ان کا
کہ دام ہستی سے مجھ کو اپنے اک ہاتھ میں وہ چھڑا چکے ہیں
وجود سے ہم عدم میں آ کر مکیں ہوئے لا مکاں کے جا کر
ہم اپنے کو ان کی تیغ کھا کر مٹا مٹا کر بنا چکے ہیں
یہی ہیں ادنیٰ سی اک ادا سے جنہوں نے برہم ہے کہ خدائی
یہی ہیں اکثر قضا کے جن سے فرشتے بھی زک اٹھا چکے ہیں
یہ کہہ دو بس موت سے ہو رخصت کیوں ناحق آئی ہے اس کی شامت
کہ در تلک وہ مسیح خصلت مری عیادت کو آ چکے ہیں
جو بات مانے تو عین شفقت نہ مانے تو عین حسن خوبی
رساؔ بھلا ہم کو دخل کیا اب ہم اپنی حالت سنا چکے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |