فسانہء مبتلا/01
پہلا باب: مبتلا کی ولادت اور طفولیت
تمول کے اعتبار سے مبتلا ایک خوش حال باپ کا بیٹا تھا اور چونکہ اکٹھی نو بیٹیوں پر جن میں سے پانچ زندہ تھیں، باپ کے بڑھاپے میں بڑی آرزوؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہوا، اس سے بڑھ کر اللہ آمین کس کی ہو گی۔ بیٹے کا ارمان تو شروع ہی سے تھا۔
ہر مرتبہ ملنے جلنے دیکھنے بھالنے والے مولوی، ملّا، نجومی، رماّل۔ حتی کہ دائی جی کے خوش کرنے کو کہہ دیا کرتے تھے کہ اب کے ضرور بیٹا ہو گا۔ مگر ایک عمر اسی میں گزر گئی۔ توقع کی ناامیدی کے واسطے، امید لگائی، ناکامیابی کے لیے، مبتلا کی نوبت میں تو یاس اس درجے کو پہنچ چکی تھی کہ سارے گھر میں کسی کو بیٹے کا سان گمان تک بھی نہ تھا۔
دم کے پانی تعویذ گنڈے ٹونے ٹوٹکے اور دوا درمن برسوں سے موقوف تھے۔
مبتلا پیدا ہوا تو سب سے پہلے دائی کو معلوم ہوا کہ بیٹا ہے۔ اس نے اتنی عقل مندی کی کہ لوگوں پر بیٹے کا ہونا فوراً ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ورنہ زچہ جس کو سکون اور قرار درکار تھا۔ مارے خوشی کے پھولی نہ سماتی اور الٹے لینے کے دینے پڑ جاتے۔ بارے بتدریج سب کو خیر ہوئی، سننے کے ساتھ جو کھڑا تھا تو کھڑا اور بیٹھا تھا تو بیٹھا۔ سجدے میں گر پڑا۔
کسی کے منہ سے دعا نکلی۔ کوئی لگا بے ساختہ زچہ گیریاں گانے، کسی نے دوڑ کر چٹا چٹ زچہ اور بچہ کی بلائیں لے لیں۔ غرض گھر کیا اسی وقت سارے محلے میں شور و غل مچ گیا اور صبح ہوتے ہوتے تو گلی میں ڈولیوں سے اور گھر میں بیبیوں سے تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ہر چند بیٹے کا ارمان اس بلا کا تھا کہ کیسا ہی بدصورت بیٹا ہوتا چوم چاٹ کر ماتھے چڑھاتے۔ مگر اس خاندان میں ہمیشہ سے صورتوں سے پرچول رہا کرتی تھی۔
گھر میں جو آتا بچے کو دیکھنا چاہتا۔ یہ لوگ پرچھاویں اور نظر کے ڈر سے اس کے دکھانے میں مضائقہ کرتے تھے۔ جب بیبیوں کا بہت تقاضا ہوا اور گرمی پڑنے لگیں تو زچہ کے پاس گھر کی کوئی عورت بیٹھی تھی۔ اس نے کہا خدا کے لیے بیبیو ذرا ہوا کا رخ چھوڑو کہ دم گھٹا جاتا ہے۔ مرد بچے کی صورت کیا دیکھنا ہے۔ خدا عمر دے، پروان چڑھائے الٰہی ماں باپ کا کلیجہ ٹھنڈا رہے۔
ایک بی بی باوجود یکہ خود بھی ہجوم کرنے والیوں میں تھیں بول اٹھیں، لوگو بھیڑ کیا لگائی ہے۔ اللہ رکھے پانچ بہنوں کا بھائی ہے۔ انیس بیس کے فرق سے اپنی بہنوں میں ملتا ہو گا۔ اتنے میں دائی اندر سے نکلی تو ساری بیبیوں نے اس کو گھیر لیا۔ کیوں بوا بچہ پورے دنوں کا صحیح سلامت تو ہوا۔ دائی بولی: ہاں پورے دن بھی کئے خوب بھرپور ہاتھ پاؤں، بال، ناخن، سب خاصے توانا ماشاء اللہ پڑے کا پڑا اور ان کے جتنے بچے ہوئے سب اسی طرح کے۔
خدا کے فضل سے کوکھ تو بہت صاف ہے۔ بیبیاں: کیوں بوا بہنوں میں ملتا ہوا تو ہے۔ دائی: بہنوں کی اس سے کیا نسبت لڑکیاں بھی اچھی صورت کی ہیں۔
مگر اس سے پہلے کی دو لڑکیاں کہ ایک دو مہینے کی ہو کر اترگئیں اور دوسری دو سوا دو برس کی بس دونوں آفتاب و ماہتاب تھیں اور یہ تو خدا جیتا رکھے نور کا پتلا ہے۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں، اونچی اور ستی ہوئی ناک پتلے ہونٹ چھوٹا دہانہ، چمکتے ہوئے سیاہ گھونگر والے بال کتابی چہرہ، صراحی دار لمبی گردن، سانچے میں ڈھلا ہوا بدن۔
میری اتنی عمر ہونے آئی۔ تیرہ برس کی بیاہی آئی تھی۔ تب سے اپنی ساس کے ساتھ یہ کام کرنے لگی، خدا جھوٹ نہ بلوائے اتنے بچے میرے ہاتھ سے ہوئے کہ جن کا شمار نہیں، مگر ایسا قبول صورت بچہ میں نے تو بڑے بڑے نامی گرامی امیروں کے ہاں بھی جن کے حسن کی آج بڑی دھاک ہے نہیں دیکھا۔ بات یہ ہے کہ اللہ عمر دے اور بھاگوان ہو، سب نے کہا: آمین۔ مبتلا کے پیدا ہونے کی روداد جو ہم نے اوپر بیان کی اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مبتلا کے ساتھ ماں باپ اور عزیز و اقارب نے کیا کچھ چو چلے نہ کئے ہوں گے۔
غرض وہ تمام خاندان اور سارے کنبے میں ایک انوکھی چیز سمجھا جاتا تھا اور حقیقت میں جس جس پہلو سے دیکھئے وہ انوکھی چیز تھا بھی، جب سے پیدا ہوا سارے سارے دن ساری ساری رات گودوں ہی میں رہتا۔ نہالچے پر لٹانے کی نوبت نہ آئی تھی۔
اپنے ہی گھر میں ماں، نانی، خالہ، ممانی ایک کم آدھی درجن سگی بہنیں۔ اتنے آدمی لینے والے تھے کہ ایک سے ایک چھینے لیتا تھا۔
باپ کا یہ حال کہ جتنی دیر ممکن تھا، گھر میں رہتے اور جتنی دیر گھر میں رہتے خود لئے رہتے یا پیش نظر رکھتے۔ مبتلا کے پہلے پانچ بلکہ سات آٹھ برس کی زندگی یعنی جب تک وہ محتاج پرورش رہا، اس قابل ہے کہ مستقلاً ان حالات کی ایک کتاب لکھی جائے مگر ہم کو تو اس کے دوسرے ہی معاملات سے بحث کرنی ہے۔ اس کی پرورش کے متعلق ہم اتنا ہی لکھنا کافی سمجھتے ہیں۔
کہ اگرچہ خاندان کے لوگ سب کے سب دین کے پابند نہ تھے، مگر مبتلا کا باپ بڑا نمازی اور پرہیز گار آدمی تھا۔ مولوی شاہ حجت اللہ صاحب کے وعظ سے اس کو ایسا عشق تھا کہ آندھی جائے، مینہ جائے، طبیعت درست ہو نہ ہو جہاں سنا کہ مولوی صاحب کا وعظ ہے سب سے پہلے موجود۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں بھی نماز پڑھتی تھیں باہمی جو احتیاطیں مبتلا کی پرورش میں بڑھتی جاتی تھیں۔
ان سے ایسا مستنبط ہوتا تھا کہ ان لوگوں کے پندار میں مبتلا کی تندرستی نہ صرف غذا سے آب و ہوا سے بلکہ مکان سے برسوں سے، مہینوں سے، دنوں سے لیل و نہار کے خاص خاص اوقات سے اپنے بیگانے کی نگاہ سے آئے گئے کی پرچھائیں سے، لوگوں کی باتوں سے، دلی خیالات سے تنہائی سے، تاریکی سے، چاندنی سے، کسوف خسوف سے، کتے سے، بلی سے، چھپکلی سے، دیو سے، بھوت سے، جن سے، پری سے، غرض ہر چیز سے جو واقعی ہے اور ہر چیز سے جو ادعائی ہے، معرض خطر میں ہے ہم تو معاذ اللہ کسی کلمہ گو مسلمان پر کفر اور شرک کا الزام کیوں لگانے لگے۔
مگر بہ مجبوری اتنی بات کہنی پڑتی ہے کہ مبتلا کے ساتھ جو برتاؤ کئے جاتے تھے واہمہ شرک اور مطنئہ کفر سے خالی نہ تھے۔ یہ بات کہ جس خدا نے ہم کو پیدا کیا ہے وہی ایک وقت مقررہ تک جس کا حال اسی کو معلوم ہے، ہماری زندگی اور تندرستی کی حفاظت کرتا ہے اور جس طرح بغیر اس کے فضل و کرم کے ہم دنیا میں رہ بھی نہیں سکتے تھے۔ سوتے جاگتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کہیں اور کسی حالت میں ہوں۔
ہم اس کی پناہ میں ہیں اور اس کا سایہ رحمت ہمارے سر پر ہے۔ وہ ہر مرض میں ہمارا طبیب ہے اور ہر مصیبت میں ہمارا معین و مددگار۔ ہر تکلیف میں ہمارا غمگسار۔ بغیر اس کی مرضی کے نہ غذا میں تقویت ہے نہ دوا میں تاثیر۔ بغیر اس کے حکم کے نہ زہر زہر ہے نہ اکسیر اکسیر۔ غرض یہ بات ان لوگوں کے معتقدات میں تو ضرور ہو گی جو مبتلا کو پال رہے تھے مگر ان کے برتاؤ میں تو کل و انابت کی کوئی بات ہمارے دیکھنے میں نہ آئی بلکہ ان کی تدبیریں سن کر حیرت ہوئی تھی کہ مبتلا کا پلنا اور پرورش پانا کیسا تھا۔
یہ گراں جان ان نادان دوستوں کے ہاتھ سے بچ کیوں کر گیا۔ کوئی دکھ کوئی روگ نہ تھا کہ جس کو یہ لوگ اسباب غلط اور ادعائی نظر آسیب وغیرہ کی طرف منسوب نہ کرتے ہوں اور چونکہ تشخیص میں غلطی ہوتی اسی وجہ سے جو تدبیریں کی جاتی تھیں غلط در غلط مگر مبتلا خلقتاً توانا پیدا ہوا تھا۔ ہمیشہ اس کی طبیعت امراض پر غالب آتی رہی۔