فسانہء مبتلا/13
نواں باب: سید حاضر کے روبرو میرمتقی کا وعظ
غیرت بیگم کو بھائیوں نے ترکہ پدری سے محروم کر رکھا تھا۔ کسی کی مجال تھی کہ ان بھڑوں کے چھتوں کو چھیڑے وہ اس بلا کے لوگ تھے کہ اگر نالش کی بھنک بھی ان کے کان میں جا پڑتی۔ تو کہاں کے ماموں اور کس کی بہن اور کیسا بہنوئی سب کی عزت کے لاگو ہو جاتے۔
یہ ایک شعر جو مشہور ہے:
ہر جا جمع نے آیند سادات
فسادات، فسادات، فسادات
کہتے ہیں کسی نے سید نگر والوں ہی کی شان میں کہا تھا اور متقی کو وہاں کے لوگوں کے ہتھکنڈے بخوبی معلوم تھے اور مخاصمانہ طور پر بھانجوں کے ساتھ پیش آنا اور ان کے مقابلے میں مدعی یا مدعاعلیہ ہونا گو بھانجی ہی کا حق طلب کرنے کے لیے کیوں نہ ہو نہ ان کو شایان تھا اور نہ غیرت بیگم کے حق میں مفید۔
سید نگر کے سب لوگ زمیندار اور رعایا یہاں تک کہ خوش باش اور اس قدر مفسد تھے کہ جھوٹ بولنا جھوٹا حلف اٹھا لینا جھوٹے گواہ جھوٹی روداد اور جھوٹی دستاویزیں بنانا حاکم کو دھوکا، پرایا حق مار بیٹھنا لوگوں کو ناحق ستانا ان باتوں کو بڑا ہنر اور داخل ہوشیاری سمجھتے تھے اور جس طرح کوئی بڑا نامی جنرل اپنے دوستوں میں فخراً اپنی فتوحات کے واقعات کا بیان کرتا ہے۔
یہ لوگ ہمیشہ دیوانی فوجداری کے مقدمات کے تذکرے کرتے رہتے تھے۔ کوئی امیر اپنی مدح پر اتنا ناز نہ کرتا ہو گا جتنا ان کو ڈگریوں اور فیصلوں پر تھا، ان لوگوں کی نظروں میں میرمتقی صوفی وفقیہ تھے مگر سادہ لوح اور عالم و فاضل تھے مگر احمق و لایعقل۔ میر متقی کا چھوٹا بھانجہ سید نگر ناظر جو غیرت بیگم سے بھی عمر میں چھوٹا تھا۔ کچہری دربار کا کام دیکھتا تھا اور تمام معاملات مقدمات اسی سے متعلق تھے۔
پس یہ گھر کا کل تھا، سید حاضر جو غیرت سے بڑا اور اکبر اولاد تھا۔ سید نگر میں مکان کی خبرگیری کرتا تھا اور رعایا سے وصول تحصیل کرنا اور کھیتی کا جتوانا بوانا غرض گاؤں کا سب کام کاج اس کے سپرد تھا، ماموں کا آنا سن کر سید نگر سے سید حاضر تو فوراً اگلے ہی دن آ حاضر ہوا اور اس نے اس کا بھی انتظار نہ کیا۔ کہ تعزیت کے لیے ماموں کی طرف سے تقدیم ہونی چاہیے۔
لیکن جب وہ واپس جانے لگا تو میرمتقی اس کے ساتھ ادائے رسم تعزیت کے لیے سیدنگر گئے۔ ناظر وہاں نہ تھا۔ معلوم نہیں کسی ضرورت سے غیر حاضر تھا۔ یا قصداً ماموں کی آمد سن کر ٹل گیا تھا۔ میرمتقی نے بتقریب تعزیت جہاں اور بہت سی باتیں سید حاضر سے کیں۔ ان میں سے یہ بھی تھی کہ تم کو شروع سے خدا نے بڑا کیا کیونکہ تم بھائی صاحب مرحوم کی اولاد میں سب سے بڑا ہو کیونکہ تم کو لوگ مرحوم کا جانشین سمجھتے ہیں اور تم ان کے جانشین ہو بھی۔
انسان کو خدا نے ایسے طور کا مخلوق بنایا ہے کہ تمدن اس کو لازم ہے جس طرح تمدن اس کے وجود کی شرط ہے کہ اگر انسان مدنی الطبع نہ ہوتے اور آدمی آدمی کے ساتھ مل کر نہ رہتا تو آگے کو ان کی نسل نہ چلتی۔ اسی طرح تمدن انسان کی حیات بلکہ اس کی ممات کی بھی شرط ہے تمدن نہ ہو تو انسان کی زندگی عذاب اور مرے پیچھے اس کی مٹی خراب۔ تمدن کی ضرورت سے آدمی دو دو، چار چار، دس دس، پچاس پچاس، ہزار ہزار، لاکھ لاکھ اور اس سے بھی زیادہ زیادہ اکٹھے ہو کر رہتے ہیں اور خاندان اور قبیلے اور کنبے اور برادری اور گاؤں اور قصبے اور شہر اسی تمدن کے مظاہر ہیں۔
تمدن سے لوگوں میں انواع و اقسام کے باہمی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، میاں بی بی بھائی بہن اور جتنے طور کے دور و نزدیک کے رشتہ دار ہیں اور ہمسایہ اور ہم وطن اور حاکم و محکوم اور بادشاہ اور رعایا اور شاگرد اور آقا اور نوکر اور افسر اور ماتحت اور زمیندار اور کاشت کار اور دکاندار اور خریدار وغیرہ یہ سب نام ہیں لوگوں کے باہمی تعلقات کے۔
ہر تعلق کے ساتھ کچھ حقوق ہوتے ہیں اور کچھ ذمہ داریاں مثلاً باپ اور بیٹے میں ایک طرح کا تعلق ہے باپ کا حق ہے کہ بیٹا اس کا ادب کرے اس کا حکم مانے اور اس کی ذمہ داری یا بعبارت دیگر اس کا فرض یہ ہے کہ بیٹے کو شفقت کے ساتھ پالے، تربیت کرے، پڑھائے لکھائے ہنر سکھائے جو اس کے کام آئے، لوگوں کا یہ حال ہے کہ تمدن کے حقوق اور فرائض میں اکثر بلکہ سب کے سب مُطَفّفِ ہیں۔
مُطَفّفِ عرب میں کہتے ہیں اس شخص کو کہ اپنا لینا ہو تو جھکی ہوئی تول لے اور دوسرے دینا ہو تو اڑتی ہوئی دے۔ ایسے ہی لوگوں کی شان میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
افسوس ہے ڈنڈی ماروں پر کہ جب لوگوں سے ناپ کر لینا ہو تو پورا پورا لیں اور جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دینا پڑے تو ان کو گھاٹا پہنچائیں، کیا لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ ایک بڑا دن آنے والا ہے اور اس دن ان کو مرکر اٹھنا ہو گا۔
اس دن لوگ پروردگار عالم کے روبرو کھڑے ہوں گے۔ اسی طرح دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں الا ماشاء اللہ جو اپنے حق میں سے کسی بھائی کو رتی بھر چھوڑ دے لینے میں تو ایسا سیانا اور سخت گیر کہ دوسرے کے حقوق ضائع ہوں، تلف ہوں کچھ پرواہ نہیں ذرا دل پر میل نہیں، دینے میں ایسا گرہ کا بھولا اور شریر اور کشمکش اور مفسدے کے روکنے کے لیے اللہ صاحب جل شانہ نے دوہرے دوہرے انتظام کیے ہیں کہ ایک سلطنت ظاہر بادشاہ ہے اور اس کے پاس فوج ہے اور توپ ہے اور تلوار ہے اور قوت ہے اور پولیس ہے اور حاکموں کا ایک گروہ ہے اور جلاد ہے اور جیل خانہ ہے اور بند ہے اور تازیانہ ہے۔
اس انتظام کے تفصیلی حالات تم کو مجھ سے بہتر معلوم ہیں۔ دوسری ایک سلطنت الٰہی ہے جس کو دین یا مذہب یا شرع کہتے ہیں۔ اس میں توپ کا نام نہیں۔ تلوار کا کام نہیں۔ اعوان و انصار نہیں فوج اور سپاہ درکار نہیں، مگر دنیا میں جس قدر امن اور جتنی عافیت ہے۔ اسی الٰہی سلطنت کی بدولت ہے۔ ظاہر بین اور کوتاہ بین ایسا سمجھتے ہیں کہ دنیا کا سارا انتظام کام ظاہر کرتے ہیں۔
استغفر اللہ نہ کرتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں۔ ملک کی ساری پلٹنیں کالوں کی اور گوروں کی اور سارے رسالے اور سارے توپ خانے اور سارے پولیس کے ملازم اور سارے حاکم سب کے مجموعے کو ملک کی مردم شماری پر پھیلا کر دیکھو تو کیا پڑتا ہے۔
اگرچہ دس ہزار باشندوں پر ایک بھی نہیں بیٹھے گا۔ مگر فرض کرو کہ دس ہزار پیچھے ایک تو کیا یہ بات سمجھ میں آنے کی ہے کہ ایک متنفس دس ہزار آدمی کے ضبط پر قادر ہو۔
آدمی تو آدمی اگر دس ہزار گدھے یا دس ہزار بھیڑ بکری بھی ہوں تو ایک چرواہا ان کو ایک جگہ کھڑا نہیں رکھ سکتا۔ نہ یہ کہ ان کو جس کروٹ اٹھائے اٹھیں اور جس کروٹ بٹھائے بیٹھیں، ہاں شاید تمہارے دل میں یہ بات ہو گی کہ حاکم ایک کو سزا دیتا ہے تو دس ہزار کو عبرت ہوتی ہے۔ لیکن خیال کرنے کی بات ہے کہ جن کو سزا ہوئی انہیں کو کیا عبرت ہوئی کہ دوسروں کو ہوتی۔
ہم نے تو یوں سنا ہے خدا جانے جھوٹ یا سچ کہ بدمعاش لوگ اول تو گرفت ہی میں نہیں آتے اور اگر کوئی شامت کا مارا قضارا ماخوذ بھی ہوا تو سید نگر والے (وکیل مختار) اس کو سزا نہیں ہونے دیتے اور سزا بھی ہوئی تو ان کو عبرت اس سے ظاہر ہے کہ چھوٹتے ہیں تو دوسرے قیدیوں کو وصیت کر آتے ہیں کہ دیکھنا بھائی میرے چولہے کو ہاتھ نہ لگانا مہینہ پورا نہیں ہونے پائے گا کہ میں پھر آتا ہوں۔
ہم کو تو کبھی اتفاق نہیں ہوا اور خدا نہ کرے کہ ہو۔ مگر اخباروں میں اکثر دیکھا کہ فلاں مقام پر فلاں خونی کو فلاں تاریخ فلاں وقت پھانسی دی گئی۔ دو ہزار آدمیوں کی بھیڑ تھی۔ عبرت ہو تو ایسی ہو۔ یہ سب نالائق تماشائی تھے اور سنگ دل قصائی اس کے علاوہ ایک بدیہی دلیل ایسی ہے کہ اس سے تو تم کو میری بات کا پورا یقین ہو جائے گا۔ یہ ہلواہا جو بیلوں کو تھان سے کھول کر لیے جا رہا تھا۔ اس کا کیا نام ہے؟