فسانہء مبتلا/24
یہی خصوصیت ان لوگوں کے حق میں سم قاتل ہے جن کی طبیعتیں لامذہبی کی طرف مائل ہیں۔ غور کرنے کی تو ان لوگوں میں عادت ہوتی ہی نہیں۔ دنیا میں ہیں اور دنیا ہی کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں بس جو کچھ ہے یہی دنیا ہے۔ لیکن ذرا عقل کو کام میں لائیں تو معلوم ہو اور اندر سے دل آپ ہی آپ گواہی دینے لگے کہ نہیں ایک جہاں اور بھی ہے۔ یہ دنیا خواب ہے اور وہ جہاں اس کی تعبیر یہ مجاز ہے اور وہ حقیقت یہ نمونہ ہے اور وہ اصل جس طرح عقل دنیا میں سب کی یکساں نہیں۔
اسی طرح عقل دین کے مدارج بھی متفاوت ہیں۔ بعض لوگ وہ ہیں جو صرف موجوداتِ دنیا سے خدا کو اور خدا سے اس کی عظمت کو اور اس کی عظمت سے اس کی معبودیت کو مانتے پہچانتے ہیں اور بعض موجودات سے نہیں بلکہ خیرات سے اور تغیرات سے بھی نہیں بلکہ حادثات عامہ سے بھی متنبہ نہیں ہوتے تاوقتیکہ ان پر کوئی آفت نازل نہ ہو اور بعض حادثات عامہ سے حلول مصیبت پر بھی کہنے کے محتاج گویا بیل ہیں کہ آر بھی چبھوو دو اور ساتھ منہ سے بھی ٹٹکاری دو تب ان کو خبر ہو کہ چلنا چاہیے۔
اے میرے پیارے بھتیجے اے مرحوم کی یادگار اے مغفور کی نشانی مجھ کو بھائی کے مرنے کا اتنا رنج نہیں ہوا جتنا تمہارے دین کی تباہی کا۔ بھائی اگر مرے تو عمر طبعی کو پہنچ کر مرے اور ایک دن مرنا ضرور تھا۔ میں نے اپنی موت کے لیے دعا تو نہیں مانگی۔ اس واسطے کے موت کے لیے دعا مانگنا منع ہے۔ مگر سات برس عرب میں رہا کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ میں نے اس سرزمین میں اپنے دفن ہونے کی تمنا نہ کی ہو۔
مگر خدا کی مبارک مرضی یوں تھی کہ میں یہاں پھر آؤں اور بھائی کا مرنا سنوں جب سے میں نے بھائی کا مرنا سنا ہر روز بلکہ دن میں کئی کئی بار (دعا نہیں) دل میں تمنا کرتا ہوں کہ الٰہی اگر عرب کی مٹی سے میرا خمیر نہیں ہے تو مجھ کو باایمان دنیا سے اٹھا کر اس شخص کے پہلو میں مجھ کو جگہ دے جو مجھ کو دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھا میرے بڑے بھائی اور تمہارے والد مرحوم۔
میں نہیں جانتا کہ یہ تمنا بھی پوری ہو یا نہ ہو مگر بھائی کے مرنے کے بعد اب زندگی بے مزہ ہے اور اس ملک میں رہنا اس سے زیادہ بے مزہ۔ یہ مت سمجھو کہ آدمیوں کے باہمی تعلقات اس زندگی تک کے تعلقات ہیں۔ نہیں نہیں یہ تعلقات روحی تعلقات ہیں اور چونکہ روحوں کو فنا نہیں۔ ان کے تعلقات کو بھی انقطاع نہیں۔ یقین جانوں کہ تمہاری اس طرز زندگی سے بھائی کی روح کو ایذا ہوتی ہے۔
کیونکہ ان کو اس زندگی میں بھی تمہاری تکلیف کی برداشت نہ تھی اور اس طرز زندگی کے ہاتھوں تم پر جو سخت بلا نازل ہونے والی ہے میں اس کو عقل سے جانتا ہوں اور تمہارے باپ اس کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ باپ سے ہو سکتا ہے کہ بیٹے کو کنویں میں گرتا ہوا دیکھے اور پروا نہ کرے۔
باپ سے ممکن ہے کہ بیٹا جلتی ہوئی آگ میں کودے اور وہ کھڑا ہوا تماشا دیکھے مرحوم نے لوگوں کی نظروں میں سلامت روی اور نیک وضعی اور بھلمنساہٹ سے جو ایک وقار پیدا کیا تھا تم ہی اپنے دل میں انصاف کرو کہ تم نے اس کو بڑھایا یا گھٹایا۔
روشن کیا یا مٹایا۔ ایسے چاہنے والے ایسے شفیق ایسے مہربان ایسے دل سوز باپ کے احسانات کا یہی معاوضہ تھا۔ ان کے سلوک اسی پاداش کے قابل تھے۔ جو باتیں میں تم سے کہہ رہا ہوں، تم کو شاید پہلی بار ان کے سننے کا اتفاق ہوا ہو گا۔ مگر میری ساری عمر ان ہی غوروں اور فکروں میں گزری ہے اس میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ شروع سے مجھ کو اچھے لوگوں کی صحبت رہی ہے ہندوستان سے لے کر عرب تک ہزار ہا علماء اور شیوخ سے ڈھونڈھ کر ملا اور جس سے جتنا فیضانِ قسمت کا تھا حاصل ہوا۔
الحمدللہ تم دیکھتے ہو کہ میں دین کے کاموں میں بھی جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے اور افسوس ہے کہ قدر واجب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا، لگالپٹا رہتا ہوں، اس پر بھی خدا کی عظمت اور اس کے جلال پر نظر کرتا ہوں تو مجھ کو اپنی نجات کی طرف سے بالکل مایوسی ہوتی ہے اور تنہائی میں خصوصاً رات کے وقت دنیا کی بے ثباتی قیامت کے حساب اور اپنی بے بضاعتی کے افکار ہجوم کرتے ہیں تو مجھ کو اس قدر وحشت ہوتی ہے کہ تم کو اس کا اندازہ سمجھنا مشکل ہے۔
صرف اس کی رحمت کی بے انتہائی توقع اس وقت دست گیری کرتی ہے جس سے دل کو تسلی ہوتی ہے۔ یہ زحمت جو مجھ کو دین کے کاموں میں اٹھاتے ہوئے دیکھتے ہو۔ اگر اس کو زحمت سے تعبیر کرنا درست ہو تو اتنی مدد کرتی ہے کہ امیدواری رحمت کی ڈھارس بندھاتی ہے، اگر خدا عقل میں راستی دے تو دنیا کی سب باتوں سے دین کی تعلیم نکلتی ہے۔
دنیا میں جس کو جس پر کسی طرح کی حکومت ہے جیسے شوہر کو بی بی پر یا باپ کو اولاد پر یا بادشاہ کو رعایا پر اگرچہ دنیا کی ساری حکومتیں عارضی اور ضعیف ہیں۔
اس پر بھی کوئی حاکم کسی محکوم کی کسی نافرمانی سے درگزر نہیں کرتا۔ کیا غفلتیں ہیں کیا بے فکریاں ہیں کیا مغالطے ہیں کیا بے مناسبتی ہے کہ بندئہ بے حقیقت و ناچیز نافرمانی کیسی، اس قادر ذوالجلال کے اوامر کا استخفاف کرے گویا اس کا مدمقابل ہے اور پھر درگزر کی توقع۔ کیا ہیکڑی ہے۔ مغفرت کی امید کیا بے حیائی ہے۔ تم کو اکثر باتوں میں مغالطہ واقع ہوا ہے، دوستوں کے بارے میں بھی تمہاری رائے غلطی سے محفوظ نہیں رہی۔
یہ لوگ جو تمہارے آگے پیچھے پڑے پھرتے ہیں اور ہر وقت تم کو گھیرے رہتے ہیں۔ جہاں تک میں نے خیال کیا ہے ایک کو بھی تمہارا خیرخواہ نہیں پاتا، ان کے کچھ مطلب ہیں، بے ہودہ اغراض ہیں۔ فاسد تم کو دیکھ پایا، عقل کے کوتاہ گانٹھ کے پورے۔ آپ بنے شکاری اور تم کو گروا یاٹٹی اور لگے تمہاری آڑ میں تکے چلانے۔ غرض مندانہ رابطے عموماً اور خاص کر جبکہ اغراض خسیس ہوں، نہایت بے ثبات ہوتے ہیں اور جلد ٹوٹنے والے۔
مجھ کو تو توقع یہ ہے کہ تم نے خود اس کا تجربہ کر لیا ہو گا ورنہ میرا اس وقت کا کہنا چاہو لکھ رکھو کہ تمہارے اتنے دوست ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دو برس تک بھی صحبت یوں ہی چلی جائے تو جاننا کہ بہت چلی۔
دنیا کے تمام جسمانی تعلقات کا یہی حال ہے۔ غیروں کی کیا شکایت دوسروں کا کیا گلا، اپنے ہی اعضا و جوارح اپنی ہی قوتیں کب تک کی ساتھی ہیں۔
دیکھو مجھ جیسے بوڑھوں کو کہ ایک بصارت سے معذور ہے تو دوسرا ثقل سمع سے مجبور کسی کی بھوک تھکی ہوئی ہے اور کسی کے ہاضمہ میں فتور۔ پیری و صد عیب زندہ درگور۔ دنیا کی یہی بے ثباتی دیکھ کر جن کی عقلیں سلیم ہیں، فانی لذتوں کے گرویدہ اور عارضی منفعتوں کے فریفتہ نہیں ہوتے، جس قدر میں نے تم سے کہا۔ اگرچہ ضرورت سے بہت کم کہا مگر مجھ کو تمہاری طینت کی پاکیزگی سے امید ہے کہ انشاء اللہ رائیگاں نہ جائے گا اور خدا نے چاہا تو میں دعا بھی کروں گا کہ تمہارے دل میں سوچنے اور غور کرنے کا شوق پیدا ہو مگر قاعدہ ہے کہ دنیا میں کوئی متبذل سے متبذل فائدہ بھی بے خطاب نہیں ملتا۔
سچ ہے کہ جب تک بچہ روتا نہیں ماں بھی دودھ نہیں دیتی پس دین کے عمدہ اور دائمی فائدے بدرجہٴ اولیٰ طلب پر موقوف اور پیروی پر منحصر ہونے چاہئیں اور وہ تمہارے کرنے کا کام ہے۔ دین کے کام ہیں تو دل سے متعلق اور کوئی شخص دوسرے کے خیالات یعنی دلی حالت پر مطلع نہیں ہو سکتا مگر خیالات کی اصلاح سے ارادے کی اور ارادے سے افعال کی طرز تمدن کی اور وضع کی گفتگو کی نشست برخاست کی حرکات و سکنات کی سبھی چیزوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ یعنی انسان کا ظاہر حال اس کے دل کا ترجمان ہوتا ہے۔ پس تم کہو یا نہ کہو خود بخود منکشف ہوتا رہے گا کہ جس راستے پر میں نے تم کو لگا دیا ہے، تم نے اس میں چلنا شروع کیا یا نہیں۔