فسانہء مبتلا/28
مبتلا: (چونک کر) میں اور حسن سے نفرت تو یوں کہیے کہ میرے سر سے دماغ کو اور دماغ سے عقل کو اور عقل سے سلامت کو سب کو سلب کر لینے کی فکر میں تھے۔ بھلا آپ چچا باوا کے اس ارادے کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟
عارف: میں تو جناب میر صاحب کی شان کو اس سے بہت ارفع سمجھتا ہوں کہ غلط بات ان کے منہ سے نکلے یا ان کے کلام میں مبالغہ ہو۔ ان کو خدا نے علم کی، دینداری کی، خلوص کی، خیرخواہی خالق کی، گویائی کی بہت سی قوتیں دی ہیں۔
میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ انہوں نے چھٹانک بھر کو کہا تو من بھر کر دکھاتے۔ مگر افسوس ہے کہ یکایک ان کا چلنا ٹھہر گیا۔
مبتلا: آپ بھی تو ان کے شاگرد رشید ہیں۔ حسن سے نفرت نہیں تو خیر اتنا کیجیے کہ کسی طرح میری یہ شورش تو فرو ہو کہ مجھے اس تصور میں نہ رات کو نیند ہے نہ دن کو قرار ہے۔
یہ کیا بلا میرے سر پر سوار ہے۔
عارف: کبھی تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ حسن کیا چیز ہے۔
اور لوگوں کو اس قدر فریفتگی حسن کے ساتھ کیوں ہے۔
مبتلا: یہ تو کوئی غور کرنے کی بات نہیں ہے۔ مرد، عورت، بوڑھا، جوان، شہری خواندہ ناخواندہ ہر شخص جانتا اور سمجھتا ہے کہ خوبصورتی اس کو کہتے ہیں۔ تفصیل پوچھئے تو تمام شاعروں نے معشوقوں کے سراپا لکھے ہیں۔ آپ کی نظر سے بھی تو ضرور گزرے ہوں گے۔ رضا لکھنوی کا سراپا مرقع خوبی میرے نزدیک سب سے بہتر ہے۔ اس سراپا میں کئی باتیں خاص ہیں۔
اول تو سر سے لے کر ناخن پا تک کسی عضو کو نہیں چھوڑا۔ دوسرے مردوں کا سراپا الگ ہے اور عورتوں کا الگ، تیسرے اعضاء کی ساخت کے علاوہ ان کی حرکات کی خوبیاں بھی بیان کی ہیں۔ چوتھے حسن خلقی اور حسن مصنوعی کا تفرقہ بڑے عمدہ طور پر دکھایا ہے۔ غرض جو کچھ شعراء کے سراپاؤں میں ہے وہی حسن ہے اور یہ جو آپ نے پوچھا کہ لوگوں کو اس قدر فریفتگی حسن کے ساتھ کیوں ہے تو یہ میرے نزدیک انسان کی طبیعت کا خاصا ہے اور اس کے واسطے سوائے اس کے کہ آدمی کی طبیعت ہی خلقتاً حسن کی طرف راغب واقع ہوئی ہے اور کوئی وجہ درکار نہیں۔
آپ کا یہ سوال بجنسہ اسی طور کا ہے جیسے کوئی پوچھے کہ کہربا گھاس کو اور مقناطیس لوہے کو کیوں کھینچتا ہے یا آگ کیوں جلاتی ہے۔
عارف: شعراء نے جو خیالات سراپاؤں میں ظاہر کیے ہیں، آپ کو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کا ماخذ کیا ہے۔
مبتلا: میرے نزدیک ان تمام خیالات کا ماخذ وہی طبیعت انسانی ہے جو حکم کرتی ہے کہ اس عضو کو اس وضع اور اس ساخت اور اس انداز کا ہونا چاہیے۔
عارف : ہاں۔ لیکن اگر یہ خیالات طبعی ہوتے تو ضرور تھا کہ سب آدمیوں کے ایک ہی طرح کے ہوں۔ کیوں کہ آدمی آدمی انسانیت میں سب یکساں ہیں تو اس کے یہی معنی ہیں کہ طبیعت انسانی یکساں ہے اور طبیعت یکساں ہوتی تو چاہیے تھا کہ سب کے تقاضے یکساں ہوں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں جو ایک کے نزدیک مطبوع ہے۔ دوسرے کے نزدیک مکروہ۔ مثلاً بڑی خوبصورتی رنگ کی ہے۔
کہتے بھی ہیں ایک رنگ ہزار ڈھنگ، لیکن رنگ کے بارے میں مذاق اس قدر مختلف ہیں کہ گورا، سرخ و سفید، گندم گوں۔ متلح، چمپئی وغیرہ کتنی قسم کے رنگ ہیں۔ جن کے پیچھے ہمارے ملک کے لوگ سر دھنتے ہیں۔
لیکن فرض کرو کہ ان رنگوں میں سے کسی رنگ کا آدمی افریقہ میں جا نکلے تو وہاں اس کی کیسی قدر ہو گی جیسی کہ ہمارے یہاں جذامی کی یامبروص کی۔ افریقہ کے باشندے بھی آدمی ہیں ان کی طبیعتوں میں بھی ایسے ہی جوش اور ایسے ہی ولولے پائے جاتے ہیں۔
عشق و محبت ان میں بھی ہے۔ ان میں بھی حسین ہیں مگر ان کے سراپا تمہارے سراپا سے بالکل مختلف۔ خاص خاص اعضاء کی نسبت بھی مذاقوں کے اختلاف کا یہی حال ہے۔ ہم پسند کرتے ہیں بالوں کی سیاہی جس کو ہمارے شعراء تشبیہہ دیتے ہیں، شب دیجور سے، کالی گھٹا سے، مارسیاہ سے، عاشق کی تیرہ بختی سے، ظلمات سے، اور اہل یورپ چاہتے ہیں بھورے سے بال، سونے سے ہم رنگ۔
ہم ڈھونڈتے ہیں آنکھ ہوتی چور جس کی پتلی سیاہ ہو صاحب لوگ نیلی کرمجی چینیوں کی نسبت مشہور ہے کہ کمانیاں چڑھا چڑھا کر ناک کو بیٹھا چھوڑا کیونکہ ان کے نزدیک ناک کی اٹھان سے چہرہ ناہموار ہوتا تھا۔ عورتوں کے پاؤں کو کیسا شکنجے میں کسا کہ کھڑے ہونے سے ان کا مرکز ثقل ہی ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ ناچار گر گر پڑتی ہیں۔ ہمارے یہاں دانتوں کا وصف ہے صفائی اور چمک۔
چینیوں میں تیرگی اور سیاہی افریقہ میں عورتیں دانتوں کو سوہن کرا کے آرے کا ہم شکل بناتی ہیں۔ انگریزنیاں ساری دنیا کی عورتوں پر ہنستی ہیں کسی کے گہنے پر کسی کے لباس پر کسی کے پاؤں کی بندش پر کسی کے بناؤ سنگھار پر اور خاص کر چینیوں پر اور ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان کی اصلی خوبصورتی اس کی قدرتی بناوٹ میں ہے۔ مگر جس وقت اپنی بہنوں پر جو دوسرے ملکوں کی رہنے والیاں ہیں ہنستی ہیں۔
ان کو اپنی کمر یاد نہیں رہتی۔ مختلف ملکوں کی تاریخیں اور جغرافیے پڑھو تو معلوم ہو کہ حسن کی نسبت لوگوں کے خیالات کس قدر مختلف ہیں۔ قومی اختلاف سے اتر کر شخصی اختلاف پر آؤ تو ہر جگہ وہی معاملہ ہے کہ لیلیٰ را بچشم مجنوں بایددید۔
غرض جہاں تک غور کیا جاتا ہے حسن کا کوئی مفہوم معین نہیں ٹھہرتا۔ پس مفہوم حسن کو انسان کا طبعی خیال سمجھنا غلط ہے بلکہ وہ ایک شخصی خیال ہے۔
مبتلا: یہ تو ایک لفظی بحث ہے۔ حسن کی نسبت میرا خیال طبعی یا شخصی ہو تو نتیجہ واحد ہے کہ مجھ سے بدون حسن کے صبر نہیں ہو سکتا۔
عارف: واہ واہ لفظی بحث کی بھی خوب کہی۔ اجی حضرت یہ تو علم الاخلاق کا ایک بڑا ضروری مسئلہ ہے۔ جتنی باتیں طبعی ہیں یعنی تقاضائے طبیعت انسانی سے سرزد ہوتی ہیں۔ کسی کے روکے رک نہیں سکتیں۔ ان کی تبدیلی میں کوشش کرنا محض لاحاصل ہے اور مطلق بے سود، مگر نہیں بلکہ افراد خاص اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں۔
اگرچہ ان ادعائی ضرورتوں کا تقاضا کبھی ضرورتوں سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی چونکہ تقاضائے طبیعت نہیں ہے اس کی شورش کو فرو اس کی تیزی کو مدھم کرنا ممکن ہے۔ مثلاً مطلق کھانا پینا تقاضائے طبیعت انسانی ہے اور کسی تدبیر سے یہ خواہش دفع نہیں ہو سکتی۔ مگر خاص قسم یا خاص ذائقے یا خاص کیفیت کے کھانے کا التزام تقاضائے طبیعت انسانی سے خارج ہے۔
جو لوگ شراب یا افیوں یا مدک یا چنڈو یا گانجے یا چرس یا تاڑی یا حقے یا کسی قسم کے نشے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ اس کی طلب میں ایسے بے قرار ہو جاتے ہیں جیسے بھوبھل میں مچھلی تاہم یہ ایک ضرورت ہے جس کو ان کی طبیعت شخصی تقاضا کرتی ہے نہ طبیعت انسانی۔ اسی طرح خداوند تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے نوع انسان کے باقی رہنے کے لیے ایک قاعدہ ٹھہرا دیا ہے کہ دو طرح کے آدمی بنائے۔
مرد اور عورت اور دونوں کے لیے عمر کا ایک وقت مقرر کر دیا کہ جب اس حد پر پہنچیں تو دونوں میں از خود ایک دوسرے کی طرف رغبت پیدا ہو۔ بس یہاں تک اور صرف یہیں تک تقاضائے طبیعت انسانی ہے۔ جیسے مطلق غذا اور اس سے بڑھ کر جس طرف رغبت کرتا ہے، پورا یا ادھورا رند کے سراپا کا مصداق ہو کر از قبیل نشہ ہے۔ جہاں انسان کے اور ہزار ہا لغویات ہیں کہ شاید دس ہزار آدمیوں میں ایک بھی ان سے محفوظ نہیں۔ ایک طرح کی لغویات حسن پرستی بھی ہے۔ بھلا کوئی مجھ کو اتنا تو سمجھا دے کہ طبیعت انسانی جس رغبت کا تقاضا کرتی ہے۔ اس سے اور رند کے یا کسی دوسرے شاعر کے سراپا سے کیا مناسبت۔