فسانہء مبتلا/32
اٹھارہواں باب: مبتلا کا دامِ محبت میں مبتلا ہونا
عارف تو یہ کہہ کر اس وقت رخصت ہو گیا۔ مبتلا کے شیاطین برابر اس کی گھات میں لگے ہوئے تھے۔ میرمتقی کا جانا سنتے ہی سب نے چاروں طرف سے یورش شروع کی۔ مبتلا تو ایک مدت سے ادھار پر عیاشی کر ہی رہا تھا۔ سینکڑوں روپے ان لوگوں کے اس پر چڑھے ہوئے تھے۔
پہلے کوہلے ہوئے، خدا جانے میرمتقی کے رہتے ہوئے بھی انہوں نے کیوں کر صبر کیا ہو گا۔ میرمتقی کا اگر جانا نہ ہوتا تو آخر ایک نہ ایک دن اس قرض کا جھگڑا ان کے روبرو پیش ہوتا تو وہ عمدہ طور پر فیصلہ بھی کر دیتے اب اونے پونے کیسے سوائے ڈیوڑھے کی قسط بندی تو قرضے کا چکوتا ہوا۔ ان لوگوں کے پاس آکر بیٹھنے بات کرنے سے مبتلا کی طبیعت جو میرمتقی اور عارف کے سمجھانے سے کسی قدر سنبھل چلی تھی پھر بگڑی۔
سامان تو ایسا بندھا تھا کہ مبتلا پھر بدستور سابق آوارہ مزاج ہو جائے۔ مگر ادھر تو نصیحت کے خیالات تھے تازہ اور ادھر ادائے قرض کی وجہ سے مبتلا کو ان لوگوں سے ایک طرح ناخوشی تھی لہٰذا اور تو کسی کے پاؤں نہ جمے مگر اب سے کوئی تین چار برس پہلے کا مذکور ہے۔ مبتلا کے والدین ان دنوں زندہ تھے۔ اسی محلے میں مبتلا کے گھر سے ذرا فاصلے پر ایک عورت کرایہ کے مکان میں آکر رہی۔
وہ تھی تو لکھنئو کی کوئی خانگی پر اس نے اپنے تئیں بیگم مشہور کیا۔ باوجود یہ کہ تھوڑے ہی دنوں کی آئی ہوئی تھی مگر سارے محلے میں اس کی خوبصورتی اور لیاقت کا غل مچ گیا۔ عیاش مزاجوں میں جو جس ڈھب کا تھا۔ اپنے شوق کی چیز میں بیگم کا مداح تھا کہ شاعر کہتے تھے فی البدیہہ شعر کہتی ہے۔ ستار بجانے والوں میں چرچا تھا کہ بول خوب بجاتی ہے۔ تاش گنجفہ چوسر شطرنج کھیلنے والے ان تمام کھیلوں میں اس کے کمال کے قائل تھے۔
صلح جگت پھیلتی حاضر جوابی پہیلی مکرنی کی نسبت میں سب مانتے تھے کہ اپنا جواب نہیں رکھتی۔ اس کی خوبصورتی میں لوگ کچھ کلام کرتے تھے مگر اس کے جامہ زیب ہونے پر سب کو اتفاق تھا۔
مبتلا تو خود ایسی خبروں کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا۔ اس کو بیگم کا حال سب سے پہلے معلوم ہوا ہو گا۔ لیکن باپ کے رہتے محلے کے محلے میں بدلحاظی نہیں کر سکتا تھا نہ جا سکا۔
باپ کے پیچھے جب مبتلا کھل کھیلا تو جہاں اس نے اور نالائقیاں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بیگم سے ملا۔ شاعری اور ستار اور شطرنج تو سب بہانے تھے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ عورت تھی بڑی گویا۔ اس کی زبان کہے دیتی تھی کہ خواصی یا مصاجت یا کسی دوسرے طور پر اس نے بادشاہی محلات میں ضرور تربیت پائی ہے۔ یا کیا عجب ہے کہ جیسا وہ کہتی تھی خود بیگم ہی ہو۔
لسانی کے علاوہ اس کا سلیقہ مجلس بھی بہت دلکش تھا۔ وہ نہایت جلد آدمی کے دل کو ٹٹولتی اور ہر ایک کے ساتھ اس ہی کے مذاق کی باتیں کرتی۔ یہ عمل تھا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتی تھی۔ ورنہ صورت شکل کے اعتبار سے وہ کچھ چنداں قدر کی چیز نہ تھی۔ مبتلا کے ساتھ آنکھیں چار ہوتے ہی وہ پہچان گئی کہ یہ کوئی نیا مردوا بنا ہے۔ اس نے مبتلا کو دور سے کھڑے ہو کر ایسے انداز کے ساتھ سلام کیا جیسے کوئی ہندو آفتاب کو ڈنڈوت کرتا ہے اور گاؤتکیہ جس سے وہ لگی ہوئی بیٹھی تھی۔
چھوڑا اپنی جگہ مبتلا کو بٹھایا اور آپ موٴودب سامنے ہو بیٹھی۔ مبتلا نے چاہا کہ اس کو اپنے برابر بٹھائے مگر وہ ایاز قدر خود بشناس کہہ کر پہلو پر نہ آئی۔
مبتلا تو تمہید کلام ہی سوچتا رہا کہ اتنے میں وہ آپ ہی بولی ایک مدت سے دلی کی تعریفیں سن سن کر جی پھڑکتا تھا اور دل میں ارمان تھا کہ اگر پَر ہوتے تو اڑ کر جاتی اور ایک نظر دلی کو دیکھ آتی۔
بارے سان نہ گمان خود بخود ایسا اتفاق پیش آیا کہ خدا نے دلی میں لا بٹھایا۔ جیسا سنا تھا اس سے ہزار حصے بڑھ کر پایا۔ چشم بددور لکھنئو میں دولت کی افراط ہے اور لوگ بھی وہاں کے بڑے زندہ دل ہیں۔ حسن کی جو قدرومنزلت ہمارے لکھنئو میں ہے۔ کسی دوسرے شہر میں کم ہو گی اور یہی سبب ہے کہ ملکوں ملکوں سے حسن کھنچ کر سب لکھنئو میں سمٹ آیا ہے اور میرا رہنا بھی ایسی ہی جگہ ہوا ہے کہ اس کو حسن کا اکھاڑا کہنا چاہیے۔
مگر اپنا شہر ہے تو ہونے دو، بات تو سچی ہی کہی جائے گی۔ ماشاء اللہ آپ کی صورت کا آدمی بھی میری نظر سے نہیں گزرا۔
مبتلا: یہ تو سب تمہاری مہربانی ہے۔ چونکہ تم نظر محبت سے دیکھتی ہو تم کو تو میری صورت بھی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ہم مردوں کی صورت اگر اچھی ہوئی بھی تو کیا، بے مصرف۔ صورتیں تو تم لوگوں کی ہیں کہ ایک عالم تمہاری ان صورتوں ہی کے پیچھے دیوانہ ہو رہا ہے۔
میں نے بھی تمہاری صفت و ثنا بہت کچھ سنی تھی اور تمہارے دیکھنے کے لیے دل بے قرار تھا۔ مگر موقع نہیں بن پڑتا تھا اب جو تم کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں لکھنئو کی خراش تراش اور وضع داری کو دلی والے نہیں پاسکتے۔ مگر یہ تو کہو کہ گھر تمہارا ٹھہرا لکھنئو یہاں دلی میں تمہارے قیام کا کیا بھروسہ۔
بیگم: ہم لوگوں کا کم بخت اس طرح کا بُرا پیشہ ہے کہ کیسا ہی جامہ پہن لیں تب بھی تو کوئی اعتبار نہیں کرتا۔
آپ کو یقین آئے نہ آئے میں ایک عزت دار خاندان کی بیٹی ہوں خدا جانے یہ بھی کرم میں لکھا تھا کہ ایسے بُرے احوال سے پردیس میں پڑی ہوں۔ میرا حال اس قطعے کے مصداق ہے:
قطعہ
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
میں جس وقت لکھنو سے نکلی دل میں یہ ٹھان کر نکلی کہ اب شہر کو پیٹھ دکھائی ہے۔
جیتے جی منہ نہیں دکھاؤں گی جس حالت میں آپ مجھ کو دیکھتے ہیں جس قدر مجھے اس سے نفرت ہے۔ پس خدا ہی کو خوب معلوم ہے مگر موت اپنے بس کی نہیں۔ شاد باید زیستن۔ ناشاد بایدزیستن۔ آج اگر کوئی بھلا آدمی، خدا اس کے دل میں رحم ڈالے اور میری دست گیری کرے تو مجھ کو چرغہ کا تنا منظور چکی پیسنی قبول، میں اس کی کفش برداری کو حاضر ہوں مگر مان نہ مان میں تیرا مہمان، زبردستی کسی کے سر جو ہو جاؤں آپ سے۔
آپ کس کے ساتھ لگ چلوں۔ ہر چند مبتلا کی آوارگی ان دنوں بڑے زوروں پر تھی۔ مگر اس کے دل میں کسی عورت کے ساتھ تعلق لازمی پیدا کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا تھا۔ یہ بیگم کی سحربیانی تھی کہ ابھی اس کی تقریر پوری نہیں ہونے پائی کہ مبتلا نے اس کو گھر میں ڈال لینے کا پہلے پہل کچھ یوں سا ارادہ کر لیا۔ بیگم میں دو باتوں کی کمی تھی کہ ایک تو اس کی صورت کچھ بہت عمدہ نہ تھی بنانے سنوارنے سے ہی وہ اتنی نظروں میں جچتی تھی۔
دوسرے گانا ناچنا جس کی ان دنوں مبتلا کو چاٹ لگی ہوئی تھی اس کو مطلق نہیں آتا تھا۔
تاہم اس نے اپنی لسانی سے مبتلا کو پہلی ہی ملاقات میں اتنا تو گرویدہ کر لیا کہ شام کا گیا ڈیڑھ پہر رات کو توپ اس کے وہیں بیٹھے بیٹھے چل گئی۔ اس اثناء میں بیگم نے خوب مزے مزے کی گلوریاں اپنے ہاتھ سے بنا بنا کر مبتلا کو کھلائیں۔ دو دور چائے اور کافی کے چلے۔
مبتلا اگر ایک جلسے میں مدعو نہ ہوتا تو اس سے رات کا رہ پڑنا بھی کچھ تعجب نہ تھا۔ بارے مکان پر سے آدمی آیا کہ صاحب جلسہ خود آپ کو لینے آتے تھے۔ ناچار اٹھنا پڑا اور جلسے کی سن کر بیگم کو بھی اصرار کرنے کا موقع نہ تھا۔ مگر چلتے چلتے بیگم نے اتنا عہد تو لے لیا کہ جلسے کے سوائے اپنے یہاں ہو یا کسی دوست کے یہاں بلا ناغہ ہر روز ملاقات ہوا کرے گی اور میرمتقی کے آنے تک ایسا ہی ہوتا رہا اور اتنے دن میں بیگم نے مبتلا کے دل میں بخوبی اپنی جگہ کر لی۔
میرمتقی کی لاحول سے جہاں اور شیطان بھاگ کھڑے ہوئے تھے ان میں ایک بیگم صاحبہ بھی تھیں۔ میرمتقی کے رہتے بھی بیگم نے بہتیرے ڈھب لگائے کہ مبتلا زیادہ نہیں تو کبھی کبھار کھڑے کھڑے صورت دکھا جایا کرے۔ مگر مبتلا خود ان دنوں ہتھے سے اُکھڑا ہوا تھا آنا جانا تو درکنار زبانی سلام و پیام تک کا بھی روادار نہ ہوا۔ مبتلا بے چارے کے حال پر خیال کر کے کس قدر افسوس آتا ہے:
قسمت تو دیکھیے کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا