فسانۂ عجائب/داستانِ حیرت بیاں
داستانِ حیرت بیاں رخصت شہ زادۂ باوقار کی، پیر مرد کا عمل بتانا، وزیر زادۂ گُم گشتہ کا اُسی روز آنا، جان عالم کی عنایت، اُس کا انجمن آرا پر فریفتہ ہو جانا، دغا سے شہ زادے کو بندر بنانا۔ بعدِ خرابی ملکہ کے باعِث رہائی پانا۔
نظم:
مصیبت نگار و مصائِب رقم
جگر چاک و مغموم میرا قلم
زمانے کی کچھ طرز لکھتا ہے یاں
عجائب غرائب ہے، یہ داستاں
مری بات یہ دل سے کرنا یقیں
کسی کا کوئی دوست مطلق نہیں
جو یہ دوست ہیں، ان سا دشمن کہیں
نہیں ہے، نہیں ہے، نہیں ہے، نہیں
کیا امتحاں میں نے اکثر سُرورؔ
ضرورت کی کچھ دوستی ہے ضرور
قِصہ کوتاہ، چندے شہ زادۂ والا جاہ وہاں رہا۔ ایک رُوزیہ سب عاشق و معشوق باہم خوش و خُرم بیٹھے تھے؛ جان عالم نے کہا: ہمیں وطن چھوڑے، عزیزوں سے مُنہ مُوڑے عرصہ ہوا؛ ہنُوز دِلی دور ہے، اب چلنا ضرور ہے۔ وہ دونوں نیک خو، رضا جو بولیں: بہت خوب۔ اُسی روز حرفِ رُخصت ملکہ کے باپ سے درمیان آیا۔ مردِ انجام بیں نے روکنا مناسب نہ جانا۔ سفر کی تیاری ہوئی۔ دمِ رُخصت اس قدر مال و اسباب، نقد و جنس وغیرہ کی قسم سے شہ زادی کو ملا کہ انجمن آرا کی جہیز بھولا۔ اور وقت وداع پیر مرد نے با دلِ پُر درد جان عالم سے کہا: فقیر کے پاس آپ کے لائق کچھ نہ تھا جو پیش کش کرتا، مگر ایک نکتہ بتاتا ہوں؛ جب کہ امتحان ہو گا، خزانہ قاروں سے زیادہ کام آوے گا۔ راست، دروغ خاطر نشاں ہو گا، لطف مل جائے گا۔ پھر چند فقرے تنہا لے جا کے بتا کے، تاکید سے کہا: اگر یہ مُقدمہ حقیقی بھائی سے اظہار کرو گے؛ یاد رکھو، حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ صدمے سہو گے۔ زمانے کے اِخوانُ الشیاطیں بہ ہزار کید آمادۂ کیں رہتے ہیں۔ اسی سبب سے دانش مند زبان بند رکھتے ہیں، راز اپنا نہیں کہتے ہیں۔ یہ نکتہ حضرت آدم ؑ کے وقت سے سب کو یاد ہے: دُنیا میں برادرِ حقیقی دشمنِ مادر زاد ہے۔ فرد:
بھاگ ان بردہ فروشوں سے، کہاں کے بھائی
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر ہووے
پھر انجمن آرا پاس آ فرمایا: شہ زادی! فقیر زادی کنیز کو عزیز جان کر، نظرِ الطاف و کرم ہر دم رکھنا۔ یہ بھی خدمت گُزاری میں قُصور نہ کرے گی۔ اسے تم کو سونپا، تمھیں حافِظِ حقیقی کے سپُرد کیا؛ لُو خُدا حافظ۔ سواری دیر سے تیار تھی۔ لوگوں پر ثابت تھا کہ کوئی امرِ پُوشیدہ، درویشِ باوقار شہ زادے پر بہ تکرار اظہار کرتا ہے۔
اِتفاقاتِ زمانہ، اُسی روز وہ وزیر زادہ جو وطن سے ساتھ نکل، ہرن کے پیچھے گھوڑا پھینک، دشتِ اِدبار میں شہ زادے سے جُدا ہوا تھا؛ سرگشتہ و پریشاں، پھِرتا پھِرتا، پیادہ پا اِدھر آ نکلا۔ اُس نے جو یہ لشکرِ جرار اور قافلہ تیار دیکھا، پوچھا: کس کی سواری، کہاں کی تیاری ہے؟ لوگوں نے تمام جان عالم کا قصہ سُنایا۔ یہ خوش ہوا، جی میں جی آیا۔ پوچھا: شہ زادہ کہاں ہے؟ وہ بولے: پیر مرد جو یہاں کا مالک ہے، کامِل ہے، عامِل ہے، فقیرِ سالِک ہے؛ کچھ کہنے کو تنہا جُدا لے گیا ہے۔ اس عرصے میں جان عالم رُخصت ہو سوار ہوا۔ سلامی کی تُوپ چلی، نقارہ نواز نے ڈنکے پر چُوب دی۔ وزیر زادے نے ہُلڑ میں دوڑ کر مُجرا کیا۔ شہ زادے نے گھوڑے سے کود کے گلے لگایا، دیر تک نہ چھُوڑا۔ اُسی دم لباسِ فاخرہ پنھا، ہمراہ سوار کیا۔ راہ میں سرگُذشتِ تفرقہ پوچھتا کہتا چلا۔ جب خیمے میں داخل ہوا، وزیر کو محل سرا میں طلب کیا۔ انجمن آرا اور ملکہ کو نذر دلوا کے، کہا: یہ وہی شخص ہے جس کا المِ مُفارقت مُدام دل میں کانٹا سا کھٹکتا تھا، جی سینے میں تنگ تھا، آمد و شُد میں دم اٹکتا تھا۔ دیکھو، جب اچھے دن آتے ہیں، بے تلاش بچھڑے مل جاتے ہیں۔ جس دن گردوں نے ہمیں آوارۂ دشتِ اِدبار کیا تھا، جُدا ہر ایک دوست دارِ غم خوار کیا تھا۔ اب مساعدتِ بخت سے ایامِ سخت دور ہوئے، بہم مہجور ہوئے۔
وزیر زادے کا حال سُنو: انجمن آرا کا حُسن و جمالِ بے مِثال دیکھ، دیوانہ ہو، ہوش و حواس، عقل کھُو؛ نمک حرام بنا، وصل کی تدبیر میں پھنسا۔ اُستاد:
یار، اغیار ہو گئے، اللہ!
کیا زمانے کا انقلاب ہوا
اُستاد:
خدا ملے تو ملے، آشنا نہیں ملتا
کوئی کسی کا نہیں دوست، سب کہانی ہے
دُو چار گھڑی یہ صحبت رہی، پھر اپنے اپنے خیموں میں گئے۔ وزیر زادے کے واسطے خیمۂ عالی اِستاد ہوا۔ پھر جتنی جلیسیں، انیسیں حسیں، مہ جبیں دونوں شہ زادیوں کے ہمراہ تھیں؛ اُسے دِکھا، فرمایا: جس طرف تیری رغبت ہو؛ سعی کروں، دِلوا دوں۔ وہ نُطفۂ حرام اور خیال میں تھا، یہ مُقدمہ مطلب کے خلاف صاف صاف سمجھا، عرض کرنے لگا: میری کیا مجال ہے اور کیا تاب و طاقت ہے جو اِنھیں بُری نگاہ سے دیکھوں۔ جان عالم اس وضعی حرکت سے بہت رضامند ہوا کہ یہ بڑا نیک طینت، صاف باطن ہے۔ بہ اسبابِ ظاہر اِس نظر سے زیادہ مدِ نظر ہوا، دل میں گھر ہوا۔ تمام صُعوبتیں، حالاتِ سفر، رنجِ راہ، قریہ و شہر کا گزر شہ زادے نے بیان کیا؛ مگر جب پیر مرد کے مشورے کا ذکر آتا، ٹال جاتا۔ وہ سمجھا، کچھ اس میں بھید ہے۔
ایک رُوز ملکہ مہر نگار اور انجمن آرا نے متفِق ہو کر جان عالم سے کہا: یہ نیا ماجرا ہے، ہر دم ایک شخصِ غیر اور جوان کو شریکِ صحبتِ خلا ملا رکھنا کیا مناسب ہے؟ اور دابِ سلطنت سے بھی یہ امر بعید ہے۔ شیطان کو انسان دور نہ جانے۔ غیر تو کیا، اپنے کا اعتبار نہ مانے۔ جان عالم نے کہا: پھر ایسا کلمہ زبان پر نہ لانا۔ تم نے اتنا نہ قیاس کیا کہ اُس نے تمھاری لونڈیوں کا پاس کیا، نہ کہ تمھارا حفظ مراتب۔ اور میں بھی تو ایسا بیہودہ، نادان نہ تھا جو خلافِ وضع حرکت کرتا۔ ملکہ یہ سُن کر ہنسی، انجمن آرا سے مُخاطب ہو کر کہا: برائے خُدا انصاف کیجیے، خاطر کی نہ لیجیے؛ اِن کے حُمُق میں کس بے وقوف کو تامُل ہو گا! آپ اگر عقل کے دُشمن نہ ہوتے، تو کیوں حوض میں کود کر، ساحِرہ کی قید میں پھنستے، نام ڈُبُوتے۔ لو بھلا سچ کہو، شرمندہ نہ ہو؛ جی میں کیا سمجھے تھے جو کود پڑے؟ ذرا یہ خیال نہ آیا، غواصِ فِکر کو مُحیط تامُل میں غوطہ زن نہ فرمایا کہ کہاں انجمن آرا، کُجا جنگل کا حوض! وہ اس میں کیوں کر آئی! وہ از خاندانِ شاہی تھی، یا شریکِ سلسلۂ ماہی، واہی تباہی تھی!
جان عالم کھسیانا ہو گیا، کہا: بات اور، مسخرا پن اور۔ کہاں کا ذکر کس جگہ لا کے ملایا۔ میری حماقت کا موقع خوب تمھارے ہاتھ آیا، جس کو سند بنایا۔ یہ تو سمجھو، شعر:
عشق ازیں بسیار کرد است و کُند
سبحہ را زُنار کرد است و کُند
اُستاد:
کہتے ہیں جسے عشق، وہ از قسمِ جُنوں ہے
کیوں کر کہ حواس اپنے میں پاتے ہیں خلل ہم
ھلا کچھ اپنی باتیں تو یاد کرو، دل میں مُنصف ہو۔ ملکہ نے کہا: دیکھا! آپ شرمائے تو یہ کہانی لائے۔ میں تو رنڈی ہوں، ناقِص عقل میرا نام ہے، مردوں کا یہ کلام ہے۔ بھلا صاحب! اگر مجھ سے کوئی بے وقوفی کی حرکت ہووے؛ تعجب کی جا نہیں، ایسی بڑی خطا نہیں؛ لیکن شُکر کرنے کی یہ جا ہے کہ آپ کا مزاج بھی میرا ہی سا ہے۔ آخر یہ بات ہنسی میں اُڑ گئی؛ مگر وہ مکار ہر کوچ و مُقام میں وقت کا مُنتظر تھا۔ ایک رُوزِ غم اندُوز شہ زادے کا خیمہ صحرائے باغ و بہار، دشتِ لالہ زار مگر ہمہ تن خار خار، پُر آزار میں ہُوا۔ فضائے صحرا نے کیفیت دکھائی، پھولوں کی خوش بو دِماغ میں سمائی۔ جا بہ جا چشمے رواں دیکھ کے، یہ لہر آئی کہ تنہاوزیر زادے کا ہاتھ پکڑ لبِ چشمہ جا بیٹھا۔ کشی شراب کی طلب ہوئی۔ جس دم جان عالم کی آنکھوں میں سُرور آیا، اِختِلاط کا زبان پر مذکور آیا؛ اُس دغا شعار، پُر فن مکار نے وقتِ تنہائی، صحبت بادہ پیمائی، نشے کی حالت غنیمت جانی، رُونے لگا۔ شہ زادے نے ہنس کر کہا: خیر ہے! وہ بولا: جو جو شرطِ رفاقت، حقِ خدمت دُنیا میں ہوتا ہے، غُلام سب بجا لایا؛ مگر محنت و مشقت، غریبُ الوطنی، دشت نوردی کا عِوض خوب بھر پایا۔ جب آپ سا قدر داں بات کو چھپاوے، تو پھر اور کسی سے کس بات کی اُمید رہے۔
جان عالم نشے میں انجام کار نہ سُوچا، اُس فیلسوف کے رونے سے بے چین ہو گیا، کہا: اگر تجھے یہی امر ناگوار ہے تو سُن لے جو اسرار ہے: مجھے ملکہ کے باپ نے یہ بات بتائی ہے جس کے قالب میں چاہوں، اپنی روح لے جاؤں۔ اُس نے پوچھا: کس طرح؟ شہ زادے نے ترکیب بتا دی۔ جب وہ سب سیکھ چُکا، بولا: غُلام کو بے امتحان غلطی کا گُمان ہے۔ شہ زادے نے کہا: اِثبات اس بات کا بہت آسان ہے۔ اُٹھ کر جنگل کی طرف چلا۔ چند قدم بڑھ کر بندر مُردہ دیکھا، فرمایا: دیکھ میں اس کے قالب میں جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر شہ زادہ زمین پر لیٹا، بندر اُٹھ کھڑا ہوا۔ وزیر زادے کو سب ڈھنگ یاد ہو گیا تھا؛ فوراً وہ کُور نمک زمین پر گرا، اپنی روح جان عالم کے قالبِ خالی میں لا، کھڑا ہوا اور کمر سے تلوار نکال، اپنا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر کے دریا میں پھینک دیا۔ یہ غضب بڑا ہوا، شہ زادے کا نشہ کِر کِرا ہوا۔ سمجھا: بڑی خطا ہوئی، ازماست کہ برماست، خود کردہ را علاجے نیست۔ وہ کافِر بندر کے پیچھے دوڑا۔ شہ زادہ بچارا بھاگ کر درختوں کے پتوں میں چھپا۔
پھر تو بہ دِل جمعیِ تمام وہ نُطفۂ حرام لہو کپڑوں پر چھڑک، بے دھڑک ملکہ کے خیمے میں گیا، رُویا پیٹا، کہا: اس وقت ظلم کا حادِثہ ہوا، میں وزیر زادے کے ساتھ سیر کرتا تھا؛ یکایک جنگل سے شیر نکلا، اُسے اُٹھا لے چلا۔ ہر چند میں نے جاں بازی سے شیر کو تہِ شمشیر کیا، زخمی ہوا؛ مگر اُسے نہ چھوڑا، لے ہی گیا۔ ملکہ نے تاسُف کیا، سمجھایا: قضا سے کیا چارہ! یہی حیلۂ مرگ اُس کے مُقدر میں تھا۔ پھر انجمن آرا پاس گیا، وہاں بھی یہی اِظہار کیا؛ اِلا، گھبرایا ہوا باہر چلا گیا۔ ملکہ، انجمن آرا کے خیمے میں آئی، وزیر زادے کا مذکور آپس میں رہا؛ لیکن ملکہ کو قیافہ شناسی کا بڑا ملکہ تھا، پریشان ہو کر یہ کلمہ کہا: خُدا خیر کرے! آج بہت شگونِ بد ہوئے تھے: صُبح سے دہنی آنکھ پھڑکتی تھی؛ راہ میں ہِرنی اکیلی رستہ کاٹ میرا مُنہ تکتی تھی، اپنے سایے سے بھڑکتی تھی؛ خیمے میں اُترتے وقت کسی نے چھینکا تھا؛ خوابِ مُوحِش نماز کے وقت دیکھا تھا۔ تم بھی فضلِ اِلٰہی سے عقل و شعور رکھتی ہو، آج کی حرکتیں شہ زادے کی غور کرو؛خلافِ عادت ہیں، یا مجھی کو وہم بے جا ہے؟ انجمن آرا نے کہا: تم جانتی ہو وزیر زادے سے محبت کیسی تھی! رنج و الم بُرا ہوتا ہے، بدحواسی میں اور کیا ہوتا ہے۔
القِصہ، وہ شب ملکہ کے پاس رہنے کی تھی، اسے اندر کا حال کیا معلوم تھا؛ طبیعت کے لگاؤ سے انجمن آرا کے خیمے میں گیا۔ جس وقت پہر بجا، ملکہ اِنتظار کر کے وہاں گئی۔ دیکھا شاہ زادہ مُضطرب بیٹھا ہے۔ اس نے پوچھا: آج کہاں آرام کرو گے؟ وہ سُچک کر بولا: جہاں تم کہو۔ ملکہ نے کہا: یہیں سو رہو۔ شہ زادے نے کہا: بہت خوب۔ یہ کلمہ بھی خلافِ دستور ظُہور میں آیا۔ اس کا ’’خوب کہنا‘‘ ملکہ نے بُرا مانا۔ انجمن آرا کا ہاتھ پکڑ اپنے خیمے میں لائی، رُوئی پیٹی، چلائی۔ انجمن آرا بولی: ملکہ! خُدا کے واسطے کچھ مُفصل بتا۔ وہ بُولی: غضب ہوا، قسمت اُلٹ گئی، شہ زادے سے چھُٹ گئی؛ خُدا کی قسم یہ جان عالم نہیں۔ وہ بھی شہ زادی تھی، گو سیدھی سادی تھی، کہا: دُرُست کہتی ہو، بہت سی باتیں اس نے آج نئی کی ہیں۔ ملکہ نے کہا: خیر، اب جو ہو سو ہو، تم یہیں سو رہو۔ پھر حبشنوں، تُرکنوں سے فرمایا: ہم سوتے ہیں، تم درِ خیمہ پر مُسلح جاگو؛ اس وقت شہ زادہ کیا، اگر فرشتہ آئے، بار نہ پائے۔ یہ خبر سُن کر وہ نامرد ڈرا، اکیلے اور خیمے میں جا پڑا۔ ایک ڈر دو طرف ہوتا ہے۔ ملکہ نے کہا: دیکھا! اگر جان عالم ہوتا، کبھی اکیلا نہ سوتا، بے تامُل چلا آتا۔ بدمزگی کا باعث، خفگی کا سبب پوچھتا۔ اُسے کس کا ڈر تھا، اُس کا تو گھر تھا۔ انجمن آرا کہنے لگی: صورت تو وہی ہے۔ اُس وقت ملکہ نے ماجرا غیر کے قالب میں روح لے جانے کا دمِ رُخصت اپنے باپ کے بتانے کا مُفصل بتایا؛ پھر کہا کہ شہ زادے نے وزیر زادے کو یہ حال بتایا ہے۔ آپ تو خُدا جانے کس مصیبت میں مبتلا ہوا، ہم کو موذی کے چنگل میں پھنسایا ہے۔ ہمیں رُوزِ اول اُس کی چتون پر بدگمانی کا شک آیا تھا، سامنے لانے کو منع کیا تھا، سمجھایا تھا۔ وہ نادان ہمارا کہنا خاطر میں نہ لایا، اُس کا مزہ پایا۔
القِصہ، وہ شب کہ شبِ اولینِ گور تھی، رُونے پیٹنے میں کٹی۔ انجام کار کا اُس نابکار کے خوف سے تردُد و تفکر رہا کہ دیکھیے شیشۂ ناموس و ننگ سنگِ ظُلم سے کیوں کر بچتا ہے! اور یہ کہتی تھیں، اُستاد:
کسے تیغِ جفائے چرخ سے اُمید ہنسنے کی
جو ہووے بھی تو ہاں شاید دہانِ زخم خنداں ہو
اِسی فکر و اندیشے میں صُبحِ قیامت نمود ہوئی، سواری ڈیوڑھی پر موجود ہوئی، کوچ ہوا۔ خبرداروں نے اُس بنے شہ زادے سے عرض کی: یہ سر زمینِ غضنفریہ ہے، یہاں سے پانچ کوس شہر ہے۔ حاکم وہاں کا غضنفر شاہ زِرہ پُوش ہے۔ سوار و پیادے کے سوا، لاکھ غلام جنگ آزمودہ، جرار حلقہ بہ گوش ہے۔ حکم کیا: خیمہ ہمارا شہر کے قریب ہو۔ کار پرداز حسبُ الارشاد عمل میں لائے۔ جب شہ زادیاں خیمے میں داخل ہوئیں، خود آیا۔ ادھر یہ بے چاریاں ڈر سے بادِل صد چاک، اُدھر ملکہ کے رعب سے وہ بچہ بھی خوف ناک۔ ساعت بھر بیٹھ کے اٹھ گیا۔
جب غُلغُلَۂ فوج اور آمد لشکر وہاں کے بادشاہ نے سنا کہ لشکر بے شمار، سپاہ جرار شہر کے متصل آ پہنچی؛ اسے بہت تشویش ہوئی۔ وزیر خوش تدبیر کو چند تحفے دے کر، استفسار حال، بہ ظاہر استقبال کو بھیجا؛ تا ملازمت حاصل کر کے مِن و عن حضور میں عرض کرے۔ وزیر حاضر ہوا۔ عرض بیگیوں نے خبر پہنچائی۔ وہ تو دابِ سلطنت، ریاست کا رنگ، ملاقات کا ڈھنگ جانتا تھا؛ وزیر اعظم کا بیٹا تھا، طرز رزم و بزم، آئین صلح و جنگ جانتا تھا؛ رو برو طلب کیا۔ بعد ذکر و اذکار ہر شہر و دیار، اپنا سبب آمد بہ جہت سیر و شکار اور اچھا ہونا آب و ہوا اس جوار کا اور دیکھنا یہاں کے شہر و شہر یار کا بیان کیا۔ دم رخصت خلعت فاخرہ وزیر کو عنایت ہوا اور بہ طرز دوستانہ کچھ ہدایا بادشاہ کو روانہ کیا۔
جب وزیر اپنے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ حسن اخلاق، دبدبۂ شوکت و صولت، آئین سلطنت، رعب و جرات کا اُس کے اِس رنگ ڈھنگ سے ذکر کیا کہ وہ بادشاہ بے ساختہ مشتاق ہو کر سوار ہوا۔ خبرداروں نے اس حال سے مطلع کیا۔ ارکانِ سلطنت، وزرا، امرا، بخشی، سپہ سالار پیشوائی کو گئے۔ جب قریب پہنچا، خود درِ خیمہ تک آیا۔ معانقہ کر دونوں تخت پر جا بیٹھے۔ سلسلۂ کلامِ بلاغت نظام طرفین سے کھلا۔ وہ بھی اس کی صورت پر غش ہو گیا، فصاحت پر اَش اَش کرتا رہا، بصد تکرار شہر کا مکلِّف ہوا، جلد جلد عماراتِ شاہی سجی سجائی خالی ہوئی، اس کو اُتارا، لشکر وہیں رہا۔ پھر حسبِ طلب ملکہ و انجمن آرا سرِ چوک دو محلسرا برابر خالی ہوئے۔ اس میں وہ ناموسِ سلطاں، مبتلائے بلائے بے درماں، مضطر و حیراں داخل بصد خستہ حالی ہوئے۔
چند روز دعوت، جلسے رہے۔ جب فرصت ملی، دل میں سوچا: اگرچہ جان عالم بندر ہے، اِلّا اس کے جینے میں اپنی مرگ کا خوف و خطر ہے۔ ایسی تدبیر نکالیے کہ اسے جان سے مار ڈالیے، پھر بے کھٹکے آرام صبح و شام کیجیے۔ ملکہ سے ڈرتا تھا، پیر مرد کے نام لینے سے مرتا تھا، جیسے چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔ یہ سوچ کر حکم کیا: ہمیں بندر درکار ہیں، جو لائے گا، دس روپے پائے گا۔ اہلِ شہر ہزاروں بندر پکڑ لائے۔ جو سامنے آتا، بغور دیکھ سر تڑواتا۔ تھوڑے عرصے میں بہت بندر ہلاک اس سفاک نے کیے۔ جب بندر کم ہوئے، دام بڑھے۔ بہ حدّے کہ فی بندر سو روپے مقرر ہوئے۔ دو کوس، چار کوس گرد و پیش نام و نشاں نہ رہا، بندر عنقا ہو گیا۔ چنانچہ وہیں کے بھاگے ہوئے آج تک متھرا اور بندرا بن اور اودھ بنگلے میں خستہ تن ہیں۔ بلکہ اس زمانے میں بَندرا بَن بالفتح تھا، اب عرصۂ دراز گزرا، وہ بندروں کی کثرت جو نہ رہی؛ اس کسر سے، یہ لفظ بالکسر خلقت کہنے لگی۔ غرض کہ شہر میں ہر طرف غُلغُلہ، سب کی یہی معاش ہوئی۔ ہر شخص کو بندر کی تلاش ہوئی۔ ایک چڑی مار زیر دیوارِ سرا، اُسی بستی میں بستا تھا، مگر محتاج، مفلوک۔ بہ ہزار جستجو و تگاپو تمام دن کی گردش میں دس پانچ جانور جو ہاتھ آ جاتے، دو چار پیسے کو بیچ کر، جور و خصم روٹی کھاتے۔ اگر خالی پھرا، فاقے سے پیٹ بھرا۔ ایک روز اس کی جورو کہنے لگی: تو سخت احمق ہے، دن بھر جانوروں کی فکر میں دَر دَر، خاک بہ سر، الُو سا دیوانہ ہر ایک ویرانہ جھانکتا پھرتا ہے، اس پر جو روٹی ملی تو بدن پر لتہ ثابت نہیں۔ کسی طرح اگر ہنومان کی دیا سے ایک بندر بھی ہاتھ آئے تو برسوں کی فرصت ہو۔ دلدّر جائے۔
لالچ تو بُرا ہوتا ہے، وہ راضی ہوا۔ کہا: کہیں سے آٹا لا، روٹی پکا اور جس طرح بنے، تھوڑے چنے بہم پہنچا۔ صبح بندر کی تلاش میں جاؤں گا، نصیب آزماؤں گا۔ اُس نے مانگ جانچ وہ سامان کر دیا۔ دو گھڑی رات رہے چڑی مار جال، پھٹکی پھینک؛ لاسا، کمپا چھوڑ؛ ٹٹی جو دھوکے کی تھی، وہ توڑ؛ روٹی، چنے اور رسی لے کے چل نکلا۔ شہر سے چھ سات کوس باہر نکل، درختوں میں ڈھونڈنے لگا۔
وہاں کا حال سنیے: شہ زادہ جو بندر بنا تھا، اس نے جس دن سے بندر پکڑتے لوگوں کو دیکھا تھا اور سر تڑوانے کا حال سنا تھا؛ بد حواس، پریشان، سراسیمہ، زیست سے یاس، حیران، ہر طرف چھپتا پھرتا تھا کہ مبادا کوئی پکڑ لے جائے، زندگی میں خلل آئے، اسُ روز کئی دن کا بے دانہ و آب، خستہ و خراب، ضعف و نقاہت زنجیر پا تھا، ہر قدم الجھ کے گرتا تھا، ایک درخت کے کُول میں غش ہو کر پڑا تھا۔ چڑی مار نے دیکھا، دبے پاؤں آ کر گردن پکڑی۔ اس نے آنکھ کھولی، گلا دستِ قضا میں پایا، جینے سے ہاتھ اُٹھایا۔ یقین ہوا زیست اتنی تھی، آج پیمانۂ بقا بادۂ اجل سے لب ریز ہو کر چھلکا؛ پکارا اے گردونِ دوں! اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ چڑی مار نے کمر سے رسی کھول مضبوط باندھا، پھر شہر کا رستہ لیا۔ تھوڑی دور چل، بندر نے کف افسوس مل اس سے کہا: اے شخص! کیوں خون بے گناہ، بندۂ اللہ، راندۂ درگاہ اپنی گردن پر لیتا ہے، مصیبت زدے کو اور دکھ دیتا ہے۔ وہ بولا: کیا خوب، تو باتوں سے مجھے ڈراتا ہے! اگر دیو، بھوت، جن، آسیب جو بلا ہے، بلا سے؛ مگر تیرا چھوڑنا ناروا ہے۔ آج ہی تو قسمت آزمائی ہے، نعمت غیر مترقب رام جی نے دلوائی ہے۔ تجھے بادشاہ کو دوں گا، سو روپے لوں گا، چین کروں گا۔ یہ سنتے ہی سن ہو گیا، رہی سہی جان قالب سے نکل گئی۔ ہر چند منت سماجت سے کہا: لالچ کا کام برا ہوتا ہے؛ کچھ کام نہ آیا، چڑی مار نے جلد جلد قدم بڑھایا، قریب شام شاد کام گھر آیا، جورو سے کہا: اچھی ساعت گھر سے گیا تھا، طائر مطلب بے دام و دانہ خواہش کے جال میں پھنسا۔ یہ کہہ کر خوب ہنسا۔
دو کلمے یہ سنیے: جس دن شہ زادہ گرفتارِ بلائے تازہ ہوا، یعنی چِڑی مار کے دامِ حرص میں گرفتار ہوا؛ ملکہ دل گرفتہ خود بہ خود گھبرائی، رُو رُو کر یہ بَیت زبان پر لائی، اُستاد:
ہوئی کیا وہ تاثیر اے آہ تیری
تھی آگے تو کچھ بِیش تر آزمائی
انجمن آرا سے کہا: تم نے سُنا، یہ کم بخت بندر پکڑوا کے سر کچلواتا ہے؛ یقین جانو جان عالم اس ہیئت میں ہے۔ اور آج، خدا خیر کرے، صُبح سے بے طرح دلِ ناکام کو اِضطِراب ہے، جانِ زار کو پیچ و تاب ہے۔ گھر کاٹتا ہے، غم کلیجا چاٹتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے شہ زادہ پکڑا گیا۔ یا کوئی اور آفتِ تازہ، ستمِ نَو بے اندازہ چَرخِ کہن دِکھائے گا۔ ہنسی کے بدلے رُلائے گا۔ میرؔ:
جس سے جی کو کمال ہو اُلفت
جس کی جانِب درست ہو نسبت
جُنبش اُس کی پلک کو گر واں ہو
دل میں یاں کاوِش اک نُمایاں ہو
یار کو دردِ چشم گر ہووے
چشمِ عاشق لہو سے تَر ہووے
واں دَہَن تنگ، یاں ہے دل تنگی
حُسن اور عشق میں ہے یک رنگی
انجمن آرا نے جھلّا کر کہا: اس سے اور اَفزوں کیا دنیا میں تباہی و خرابی ہو گی: شہر چھُٹا، سلطنت گئی، ماں باپ، عزیز و اَقربا کی جُدائی نصیب ہوئی، گھر لُٹا۔ زخمِ دل و جگر آلے پڑے ہیں، جان کے لالے پڑے ہیں۔ مصحفی:
مَرَضُ الموت سے کچھ کم نہیں آزار اپنا
دل میں دشمن کے بھی یا رب نہ چبھے خار اپنا
اور جس کے واسطے آوارہ و سرگشتہ ہوئے، یہ صدمے سہے، نحوستِ بختِ نافَرجام، گردِشِ اَیّام سے اُسے کھو بیٹھے، وطن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب رَضینا بہ قَضا۔ مرضیِ مَولیٰ اَز ہمہ اَولیٰ۔ ناسخ:
مجھے فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی
کاش عیسیٰ کے عِوَض موت ہی آئی ہوتی
ابرِ رحمت سے تو محروم رہی کِشت مری
کوئی بجلی ہی فلک تو نے گرائی ہوتی
ہوں وہ غم دوست کہ سب اپنے ہی دل میں بھرتا
غمِ عالَم کی اگر اِس سے میں سمائی ہوتی
یہاں تو یہ باتیں تھیں؛ اُدھر چڑی مار کی جورو چراغ لے کر بندر کو دیکھنے لگی۔ بندر سوچا: وہ کم بَخت بر سَرِ رَحم نہ ہوا؛ کیا عَجَب یہ رنڈی ہے؛ اگر نَرم زبانی سے مذکورِ آفتِ آسمانی سُنے اور مہربانی کرے۔ اِس خیال سے پہلے سلام کیا۔ وہ ڈری، تو یہ کلام کیا: اے نیک بَخت! خوف نہ کر، دو باتیں میری گوشِ دل سے سُن لے۔ گنواریاں جی کی کڑی بھی ہوتی ہیں؛ بندر کو بولنا اَچنبھا سمجھ کر کہا: کہہ۔ وہ بو لا: ہم غریبُ الوَطَن، گرِفتارِ رنج، مبتلائے محن، گھر سے دور، قید میں مجبور ہیں۔ ماں باپ نے کس کس ناز و نِعَم سے پالا۔ فلکِ تَفِرقَہ پَرداز نے کون کون سی مصیبت دِکھانے کو گھر سے نکالا۔ یہاں تک دَر بہ دَر حیران پریشان کر کے پردیس میں بُرے دن دکھائے کہ تیرے پاس گرِفتار ہو کر آئے۔ اُستاد:
پیدا کیا خدا نے کسی کو نہیں عَبَث
لایا مجھی کو یاں یہ جہاں آفریں عَبَث
اب صُبح کو جب ہم گردن مارے جائیں گے، تب سَو روپے تمھارے ہاتھ آئیں گے۔ خونِ بے گناہ کی جَزا حَشر کو پاؤ گی۔ بَیکُنٹھ چھوڑ نَرَک میں جاؤ گی۔ پَیسہ روپیہ ہاتھ کا مَیل ہے؛ اِس پر جو مَیل کرتی ہو، کتنے دن کھاؤ گی؟ کلنک کا ٹیکا ہے، دھبا اس کا جیتے جی نہ چھوٹے گا، دھوتے دھوتے گھر بہاؤ گی۔ اگر ہمارے حال پر رحم کرو، خُدا اور کوئی صورت کرے گا۔ سو روپے کے بدلے تمھارا گھر اَشَرفیوں سے بھرے گا۔ ہمارے قَتل میں گُناہِ بے لذّت یا ایک موذی کی حسرت نکلنے کے سِوا اور کیا فائدہ ہے؟ اگرچہ ایسا جینا، مرنے سے بُرا ہے؛ لیکن خُدا جانے اِرادۂ اَزَلی، مَشِیّتِ ایزَدی کیا ہے! ہماری تقدیر میں کیا کیا لکھا ہے! جو خدا کے نام پر نِثار ہے، اللہ اُس کا ہر حال میں مُمِدّ و مددگار ہے۔ تو نے بادشاہِ یَمَن کا قصّہ سُنا نہیں: ایک سلطنت للہ دی، دو پائیں، لالچیوں کی قضا آئی، جانیں گنوائیں۔
رنڈی موم کی ناک ہوتی ہے؛ جب گھر گئی، جدھر پھیرا پھر گئی۔ بندر کی باتوں پر کچھ تعجب، کچھ تَاَسُّف کر کے کہنے لگی: ہنو مان جی! وہ کہانی کیسی ہے، سناؤ مہاراج۔