فسردہ داغ جگر دل ربا نہیں رہتا
فسردہ داغ جگر دل ربا نہیں رہتا
چراغ عشق کا ہرگز بجھا نہیں رہتا
بغل میں رشک سے دل دل ربا نہیں رہتا
خفا ہے یہ کہ تو مجھ سے خفا نہیں رہتا
ہمیشہ حسن سن اے بے وفا نہیں رہتا
کبھی زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا
بجھی جو شمع تو پروانوں پہ ہوا روشن
کہ بعد مرگ کوئی آشنا نہیں رہتا
کہاں وہ گریہ وہ نالہ وہ جاں بہ لب رہنا
کسی کا کام ہمیشہ بنا نہیں رہتا
خدانخواستہ تم تو صنم نہیں ایسے
تمہارے دل میں تو کینہ سدا نہیں رہتا
کہا جو میں نے کہ اے رشک ماہ گھر میں مرے
تو مہربانی سے کیوں اک ذرا نہیں رہتا
لگا یہ کہنے کہ ہاں ہاں ہے یہ بھی اپنا شوق
نہیں نہیں نہیں رہتا ہوں جا نہیں رہتا
جو مجھ کو کہیے میں آنکھوں سے ضبط گریہ کروں
مرا قصور نہیں دل مرا نہیں رہتا
یہاں مجھے ہی نصیحت کو ہیں سبھی موجود
وہاں تو ہوش کسی کا بجا نہیں رہتا
یہ داغ عشق ہے کیوں کر نہ گل کھلے اس کا
ہزار اس کو چھپاؤ چھپا نہیں رہتا
جو دل لیا ہے تو بوسہ بھی دو سمجھ رکھو
کہ بد معاملگی میں مزا نہیں رہتا
لگائی تاک ہے کیوں محتسب نے تجھ پہ دلا
اگر تو دختر رز سے بھلا نہیں رہتا
نہ کھینچ تیغ تو احسانؔ ناتوان پہ آہ
میاں یہ زور کسی کا سدا نہیں رہتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |