فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
Appearance
فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
یہاں بھی اپنے بیگانے سے نکلے
شفق کا رنگ گہرا کر گئے اور
جو شعلے میرے کاشانے سے نکلے
ذرا اے گردش دوراں ٹھہرنا
وہ نکلے رند میخانے سے نکلے
غم دل کا اثر ہر بزم میں ہے
سب افسانے اس افسانے سے نکلے
کیا آباد ویرانے کو ہم نے
ہمیں آباد ویرانے سے نکلے
جو پہنچے دار تک منصور تھے وہ
ہزاروں رند میخانے سے نکلے
نکلتے ہم نہ غم خانے سے اخترؔ
حسیں موسم کے بہکانے سے نکلے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |