فصل گل ساتھ لیے باغ میں کیا آتی ہے
Appearance
فصل گل ساتھ لیے باغ میں کیا آتی ہے
بلبل نغمہ سرا رو رو بقضا آتی ہے
دل دھڑکتا ہے یہ کہتے ہوئے اس محفل میں
یاں کسی کو خفقاں کی بھی دوا آتی ہے
آج وہ شوخ ہے اور کثرت آرائش ہے
دیکھ کس واسطے پسنے کو حنا آتی ہے
کیا کھلے باغ میں وہ چشم حجاب آلودہ
آنکھ اٹھاتے ہوئے نرگس کو حیا آتی ہے
جاں کنی حسن پرستوں کو گراں کیا گزرے
بھیس میں حور بہشتی کے قضا آتی ہے
اس لیے رشک چمن باغ میں گل ہنستے ہیں
کہ اڑاتی تری رفتار صبا آتی ہے
مرض عشق سے بیمارؔ جو گھبراتا ہے
یار کہتا ہے مجھے خوب دوا آتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |