فصل گل کا غم دل ناشاد پر باقی رہا
Appearance
فصل گل کا غم دل ناشاد پر باقی رہا
حشر لگ یہ مظلمہ صیاد پر باقی رہا
کھول کر زلفوں کوں آیا سرو قد جب باغ میں
نقش حیرت طرۂ شمشاد پر باقی رہا
جل گیا پروانہ پن مجھ سا سمندر خو نہیں
یہ سخن شاگرد کا استاد پر باقی رہا
عاشقی میں کب روا ہے اس طرح کی ظالمی
خون شیریں گردن فرہاد پر باقی رہا
رہ گئے ذوق تبسم میں تغافل کے شہید
بسملوں کا خوں بہا جلاد پر باقی رہا
الفت لیلیٰ نے مجنوں کا مٹایا سب نشاں
نام اس کا صفحۂ ایجاد پر باقی رہا
کھول چشم لطف دے جاگیر مقصود سراجؔ
شمع رو پروانہ دل صیاد پر باقی رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |