Jump to content

فغان دہلی

From Wikisource
331139فغان دہلیمفتی صدر الدین خان آزردہ

جن کو دنیا میں کسی سے بھی سروکار نہ تھا
اہل و نا اہل سے کچھ خلط انہیں زنہار نہ تھا
ان کی خلوت سے کوئی واقف و ہمراز نہ تھا
آدمی کیا ہے فرشتے کا بھی واں بار نہ تھا
وہ گلی کوچوں میں پھرتے ہیں پریشاں در در
خاک بھی ملتی نہیں ان کو کہ ڈالیں سر پر

عیش و عشرت کے سوا کچھ بھی نہ تھا جن کو یاد
لٹ گئے کچھ نہ رہا ہو گئے بالکل برباد
ٹکڑے ہوتا ہے جگر سن کے یہ ان کی فریاد
پھر بھی دیکھیں گے الٰہی کبھو دہلی آباد
کب تلک داغ دل ایک ایک کو دکھلائیں ہم
کاش ہو جائے زمیں شق تو سما جائیں ہم

روز وحشت مجھے صحرا کی طرف لاتی ہے
سر ہو اور جوش جنوں سنگ ہو اور چھاتی ہو
ٹکڑے ہوتا ہے جگر جی ہی پہ بن جاتی ہے
مصطفیٰ خاں کی ملاقات جو یاد آتی ہے
کیونکہ آزردہؔ نکل جائے نہ سودائی ہو
قتل اس طرح سے بے جرم جو صہبائی ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.