Jump to content

فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو

From Wikisource
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
by میر تقی میر
315466فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کومیر تقی میر

فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
نکالا سر سے میرے جائے مو خار مغیلاں کو

وہ ظالم بھی تو سمجھے کہہ رکھا ہے ہم نے یاراں کو
کہ گورستان سے گاڑیں جدا ہم اہل ہجراں کو

نہیں یہ بید مجنوں گردش گردون گرداں نے
بنایا ہے شجر کیا جانیے کس مو پریشاں کو

ہوئے تھے جیسے مر جاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
کیا دشوار نادانی سے ہم نے کار آساں کو

کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں
کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں آب انساں کو

تجھے گر چشم عبرت ہے تو آندھی اور بگولے سے
تماشا کر غبار افشانی خاک عزیزاں کو

لباس مرد میداں جوہر ذاتی کفایت ہے
نہیں پروئے پوشش معرکے میں تیغ عریاں کو

ہوائے ابر میں گرمی نہیں جو تو نہ ہو ساقی
دم افسردہ کر دے منجمد رشحات باراں کو

جلیں ہیں کب کی مژگاں آنسوؤں کی گرم جوشی سے
اس آب چشم کی جوشش نے آتش دی نیستاں کو

وہ کافر عشق کا ہے دل کہ میری بھی رگ جاں تک
سدا زنار ہی تسبیح ہے اس نا مسلماں کو

غرور ناز سے آنکھیں نہ کھولیں اس جفا جو نے
ملا پاؤں تلے جب تک نہ چشم صد غزالاں کو

نہ سی چشم طمع خوان فلک پر خام دستی سے
کہ جام خون دے ہے ہر سحر یہ اپنے مہماں کو

زبس صرف جنوں میرے ہوا آہن عجب مت کر
نہ ہو گر حلقۂ در خانۂ زنجیر سازاں کو

بنے نا واقف شادی اگر ہم بزم عشرت میں
دہان زخم دل سمجھے جو دیکھا روئے خنداں کو

نہیں ریگ رواں مجنوں کے دل کی بے قراری نے
کیا ہے مضطرب ہر ذرۂ گرد بیاباں کو

کسی کے واسطے رسوائے عالم ہو پہ جی میں رکھ
کہ مارا جائے جو ظاہر کرے اس راز پنہاں کو

گری پڑتی ہے بجلی ہی تبھی سے خرمن گل پر
ٹک اک ہنس میرے رونے پر کہ دیکھے تیرے دنداں کو

غرور ناز قاتل کو لیے جا ہے کوئی پوچھے
چلا تو سونپ کر کس کے تئیں اس صید بے جاں کو

وہ تخم سوختہ تھے ہم کہ سر سبزی نہ کی حاصل
ملایا خاک میں دانہ نمط حسرت سے دہقاں کو

ہوا ہوں غنچۂ پژمردہ آخر فصل کا تجھ بن
نہ دے برباد حسرت کشتۂ سر در گریباں کو

غم و اندوہ و بیتابی الم بے طاقتی حرماں
کہوں اے ہم نشیں تا چند غم ہاے فراواں کو

گل و سرو و سمن گر جائیں گے مت سیر گلشن کر
ملا مت خاک میں ان باغ کے رعنا جواناں کو

بہت روئے جو ہم یہ آستیں رکھ منہ پہ اے بجلی
نہ چشم کم سے دیکھ اس یادگار چشم گریاں کو

مزاج اس وقت ہے اک مطلع تازہ پہ کچھ مائل
کہ بے فکر سخن بنتی نہیں ہرگز سخنداں کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.