فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
Appearance
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے
گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد
ہماری خاک کیا جانیں کہاں ہے
بہت نا مہرباں رہتا ہے یعنی
ہمارے حال پر کچھ مہرباں ہے
ہمیں جس جائے کل غش آ گیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہے
مژہ ہر اک ہے اس کی تیز ناوک
خمیدہ بھوں جو ہے زوریں کماں ہے
اسے جب تک ہے تیر اندازی کا شوق
زبونی پر مری خاطر نشاں ہے
چلی جاتی ہے دھڑکوں ہی میں جاں بھی
یہیں سے کہتے ہیں جاں کو رواں ہے
اسی کا دم بھرا کرتے رہیں گے
بدن میں اپنے جب تک نیم جاں ہے
پڑا ہے پھول گھر میں کاہے کو میرؔ
جھمک ہے گل کی برق آشیاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |