Jump to content

فنا

From Wikisource
316069فنانظیر اکبر آبادی

دنیا میں کوئی شاد کوئی درد ناک ہے
یا خوش ہے یا الم کے سبب سینہ چاک ہے
ہر ایک دم سے جان کا ہر دم تپاک ہے
ناپاک تن پلید نجس یا کہ پاک ہے
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
ہے آدمی کی ذات کا اس جا بڑا ظہور
لے عرش تا بہ فرش چمکتا ہے جس کا نور
گزرے ہے ان کی قبر پہ جب وحش اور طیور
رو رو یہی کہے ہے ہر اک قبر کے حضور
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
دنیا سے جب کہ انبیا اور اولیا اٹھے
اجسام پاک ان کے اسی خاک میں رہے
روحیں ہیں خوب جان میں روحوں کے ہیں مزے
پر جسم سے تو اب یہی ثابت ہوا مجھے
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہیں
وہ شخص تھے جو سات ولایت کے بادشاہ
حشمت میں جن کی عرش سے اونچی تھی بارگاہ
مرتے ہی ان کے تن ہوئے گلیوں کی خاک راہ
اب ان کے حال کی بھی یہی بات ہے گواہ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
کس کس طرح کے ہو گئے محبوب کج کلاہ
تن جن کے مثل پھول تھے اور منہ بھی رشک ماہ
جاتی ہے ان کی قبر پہ جس دم مری نگاہ
روتا ہوں جب تو میں یہی کہہ کہہ کے دل میں آہ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
وہ گورے گورے تن کہ جنہوں کی تھی دل میں جائے
ہوتے تھے میلے ان کے کوئی ہاتھ گر لگائے
سو ویسے تن کو خاک بنا کر ہوا اڑائے
رونا مجھے تو آتا ہے اب کیا کہوں میں ہاے
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
عمدوں کے تن کو تانبے کے صندوق میں دھرا
مفلس کا تن پڑا رہا ماٹی اپر پڑا
قائم یہاں یہ اور نہ ثابت وہ واں رہا
دونوں کو خاک کھا گئی یارو کہوں میں کیا
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
گر ایک کو ہزار روپے کا ملا کفن
اور ایک یوں پڑا رہا ہے بے کس برہنہ تن
کیڑے مکوڑے کھا گئے دونوں کے تن بدن
دیکھا جو ہم نے آہ تو سچ ہے یہی سخن
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
جتنے جہاں میں ناچ ہیں کنگنی سے تا گیہوں
اور جتنے میوہ جات ہیں تر خشک گوناگوں
کپڑے جہاں تلک ہیں سپیدہ و سیہ نموں
کمخواب تاش بادلہ کس کس کا نام لوں
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
جتنے درخت دیکھو ہو بوٹے سے تا بہ جھاڑ
بڑ پیپل آنب نیب چھوارا کھجور تاڑ
سب خاک ہوں گے جب کہ فنا ڈالے گی اکھاڑ
کیا بوٹے ڈیڑھ پات کے کیا جھاڑ کیا پہاڑ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
جتنا یہ خاک کا ہے طلسمات بن رہا
پھر خاک اس کو ہوتا ہے یارو جدا جدا
ترکاری ساگ پات زہر امرت اور دوا
زر سیم کوڑی لعل زمرد اور ان سوا
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
گڑھ کوٹ توپ رہکلہ تیغ و کمان و تیر
باغ و چمن محل و مکانات دل پزیر
ہونا ہے سب کو آہ اسی خاک میں خمیر
میری زباں پہ اب تو یہی بات ہے نظیرؔ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.