فنا
دنیا میں کوئی شاد کوئی درد ناک ہے
یا خوش ہے یا الم کے سبب سینہ چاک ہے
ہر ایک دم سے جان کا ہر دم تپاک ہے
ناپاک تن پلید نجس یا کہ پاک ہے
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
ہے آدمی کی ذات کا اس جا بڑا ظہور
لے عرش تا بہ فرش چمکتا ہے جس کا نور
گزرے ہے ان کی قبر پہ جب وحش اور طیور
رو رو یہی کہے ہے ہر اک قبر کے حضور
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
دنیا سے جب کہ انبیا اور اولیا اٹھے
اجسام پاک ان کے اسی خاک میں رہے
روحیں ہیں خوب جان میں روحوں کے ہیں مزے
پر جسم سے تو اب یہی ثابت ہوا مجھے
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہیں
وہ شخص تھے جو سات ولایت کے بادشاہ
حشمت میں جن کی عرش سے اونچی تھی بارگاہ
مرتے ہی ان کے تن ہوئے گلیوں کی خاک راہ
اب ان کے حال کی بھی یہی بات ہے گواہ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
کس کس طرح کے ہو گئے محبوب کج کلاہ
تن جن کے مثل پھول تھے اور منہ بھی رشک ماہ
جاتی ہے ان کی قبر پہ جس دم مری نگاہ
روتا ہوں جب تو میں یہی کہہ کہہ کے دل میں آہ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
وہ گورے گورے تن کہ جنہوں کی تھی دل میں جائے
ہوتے تھے میلے ان کے کوئی ہاتھ گر لگائے
سو ویسے تن کو خاک بنا کر ہوا اڑائے
رونا مجھے تو آتا ہے اب کیا کہوں میں ہاے
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
عمدوں کے تن کو تانبے کے صندوق میں دھرا
مفلس کا تن پڑا رہا ماٹی اپر پڑا
قائم یہاں یہ اور نہ ثابت وہ واں رہا
دونوں کو خاک کھا گئی یارو کہوں میں کیا
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
گر ایک کو ہزار روپے کا ملا کفن
اور ایک یوں پڑا رہا ہے بے کس برہنہ تن
کیڑے مکوڑے کھا گئے دونوں کے تن بدن
دیکھا جو ہم نے آہ تو سچ ہے یہی سخن
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
جتنے جہاں میں ناچ ہیں کنگنی سے تا گیہوں
اور جتنے میوہ جات ہیں تر خشک گوناگوں
کپڑے جہاں تلک ہیں سپیدہ و سیہ نموں
کمخواب تاش بادلہ کس کس کا نام لوں
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
جتنے درخت دیکھو ہو بوٹے سے تا بہ جھاڑ
بڑ پیپل آنب نیب چھوارا کھجور تاڑ
سب خاک ہوں گے جب کہ فنا ڈالے گی اکھاڑ
کیا بوٹے ڈیڑھ پات کے کیا جھاڑ کیا پہاڑ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
جتنا یہ خاک کا ہے طلسمات بن رہا
پھر خاک اس کو ہوتا ہے یارو جدا جدا
ترکاری ساگ پات زہر امرت اور دوا
زر سیم کوڑی لعل زمرد اور ان سوا
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
گڑھ کوٹ توپ رہکلہ تیغ و کمان و تیر
باغ و چمن محل و مکانات دل پزیر
ہونا ہے سب کو آہ اسی خاک میں خمیر
میری زباں پہ اب تو یہی بات ہے نظیرؔ
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |