Jump to content

فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا

From Wikisource
فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
by یاس یگانہ چنگیزی
318428فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہایاس یگانہ چنگیزی

فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا

میں قفس میں بھی کسی روز نہ خاموش رہا
کشمکش میں بھی طبیعت کا وہی جوش رہا

نشۂ الفت ساقی کا عجب جوش رہا
ہول صحرائے قیامت بھی فراموش رہا

غیر ہوں جرعہ کش بزم تمنا افسوس
خون کے گھونٹ میں پیتا رہا خاموش رہا

ہیچ آفت نرسد گوشۂ تنہائی را
دشت غربت میں میں یہ سونچ کے روپوش رہا

موسم گل کی ہوا داروئے بے ہوشی تھی
سر اٹھانے کا بھی سبزے کو نہ کچھ ہوش رہا

نکہت گل کی طرح جامے سے باہر ہوں گا
فصل گل کا جو گلستاں میں یہی جوش رہا

بحر رحمت میں بہت ہوگا تلاطم برپا
تجھ کو اے اشک ندامت جو یہی جوش رہا

اپنے سر سے بھی کسی روز گزر جائے گا
آب شمشیر کو قاتل جو یہی جوش رہا

سایۂ دامن قاتل میں جو نیند آئی مجھے
پھر تو کروٹ بھی بدلنے کا نہ کچھ ہوش رہا

دھوم سنتا رہا اب آتے ہیں اب آتے ہیں
حشر تک میں یوں ہی کھولے ہوئے آغوش رہا

دور کھنچتی ہی گئی منزل مقصود مگر
رہرو عشق کی ہمت کا وہی جوش رہا

رحمت حق رہی ہم عاصیوں پر سایہ فگن
سر پہ چھایا ہوا اک ابر خطا پوش رہا

اٹھتے اٹھتے تھی وہی بزم کی مستانہ روش
چلتے چلتے بھی خم مے کو وہی جوش رہا

پھر گئیں آنکھیں مری کوچۂ جاناں کی طرف
شکر ہے مرتے دم اتنا تو مجھے ہوش رہا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.