Jump to content

قربان ہے سو جان سے تم پر گلہ کیسا

From Wikisource
قربان ہے سو جان سے تم پر گلہ کیسا (1933)
by ناصری لکھنوی
323894قربان ہے سو جان سے تم پر گلہ کیسا1933ناصری لکھنوی

قربان ہے سو جان سے تم پر گلہ کیسا
دیکھو تو مرے دل نے کیا حوصلہ کیسا

ہوتا ہے مگر قید کوئی آپ کا وحشی
سنیے تو ہے زنداں کی طرف غلغلہ کیسا

ہاں شدت درد جگری بزم میں لائی
دل مر گیا اے دوست تو پھر ولولہ کیسا

تو نے تو کہا ہے میں رگ جاں سے قریں ہوں
اور ہجر کا ہے قول کہ یہ فاصلہ کیسا

مر جائے گا پابند وفا ظلم نہ چھوڑو
میں قصۂ دل کہتا ہوں اے جاں گلہ کیسا


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.