قرینے سے عجب آراستہ قاتل کی محفل ہے
قرینے سے عجب آراستہ قاتل کی محفل ہے
جہاں سر چاہیئے سر ہے جہاں دل چاہیئے دل ہے
ہر اک کے واسطے کب عشق کی دشوار منزل ہے
جسے آساں ہے آساں ہے جسے مشکل ہے مشکل ہے
زہے تقدیر کس آرام و راحت سے وہ بسمل ہے
کہ جس کے سر کا تکیہ دیر سے زانوئے قاتل ہے
طریق عشق کچھ آسان ہے کچھ ہم کو مشکل ہے
ادھر رہبر ادھر رہزن یہی منزل بہ منزل ہے
مجھے تجھ سے رکاوٹ اور تو غیروں پہ مائل ہے
مرا دل اب ترا دل ہے ترا دل اب مرا دل ہے
بڑھا دل اس قدر فرط خوشی سے وصل کی شب کو
مجھے یہ وہم تھا پہلو میں یہ تکیہ ہے یا دل ہے
تری تلوار کے قربان اے سفاک کیا کہنا
ادھر کشتے پہ کشتہ ہے ادھر بسمل پہ بسمل ہے
عدم میں لے چلا ہے رہنمائے عشق کیا مجھ کو
یہی کہتا ہے آ پہنچے ہیں تھوڑی دور منزل ہے
انہیں جب مہرباں پا کر سوال وصل کر بیٹھا
دبی آواز سے شرما کے وہ بولے یہ مشکل ہے
ستم بھی ہو تو مجھ پر ہو جفا بھی ہو تو مجھ پر ہو
مجھے اس رشک نے مارا وہ کیوں عالم کا قاتل ہے
مسیحا نے ترے بیمار کو دیکھا تو فرمایا
نہ یہ جینے کے قابل ہے نہ یہ مرنے کے قابل ہے
زبردستی تو دیکھو ہاتھ رکھ کر میرے سینے پر
وہ کس دعوے سے کہتے ہیں ہمارا ہی تو یہ دل ہے
ہمارے دل میں آ کر سیر دیکھو خوب رویوں کی
کہ اندر کا اکھاڑا ہے پری زادوں کی محفل ہے
مدارج عشق کے طے ہو سکیں یہ ہو نہیں سکتا
زمیں سے عرش تک اے بے خبر منزل بہ منزل ہے
جھڑکتے ہو مجھے کیوں دور ہی سے پاس آنے دو
بڑھا کر ہاتھ دل دیتا ہوں تم سمجھے ہو سائل ہے
سنا بھی تو نے اے دل کیا صدا آتی ہے محشر میں
یہی دن امتحاں کا ہے ہمارے کون شامل ہے
اڑاتے ہیں مزے دنیا کے ہم اے داغؔ گھر بیٹھے
دکن میں اب تو افضل گنج اپنی عیش منزل ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |