قسمت کو اپنے لکھے کے تئیں کون دھو سکے
Appearance
قسمت کو اپنے لکھے کے تئیں کون دھو سکے
سب ہو سکے ولیک یہ اتنا نہ ہو سکے
پھولوں کی سیج اس کے لیے فرش خار ہے
تجھ بن کسی طرح ترا عاشق نہ ہو سکے
تجھ بن نہ کر سکے مئے عشرت سے حلق تر
خوں ناب غم سے لب ترا عاشق نہ ہو سکے
گر چاہے گلشن دل پر داغ کی بہار
تو تخم اشک جتنے کہ اے دیدہ بو سکے
دیکھا اثر تمہارا بھی اے چشم اشکبار
کچھ کر سکے نہ اس کا گھر اپنا ڈبو سکے
دل کی ہوس نکال لیں آہ و فغاں بھی آپ
یہ بھی نہ درگزر کریں جو ان سے ہو سکے
نئیں جان و دل کے کھونے جہاں دارؔ کو دریغ
یاد اس کی پر نہ جان و دل اپنے سے کھو سکے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |