Jump to content

قواعد میر/اسم صفت

From Wikisource

اسم صفت


اسم صفت وہ اسم ہے جس سے کسی چیز کی اچھائی یا برائی معلوم ہو، جوبغیر موصوف کے اپنے معنی نہ بتا سکے اور جزوِ موصوف ہو۔ اسم صفت حقیقت میں اسم کی پوری پوری تعریف میں نہیں آتا یعنی نہ وہ مستقل اسم ہے نہ بغیر دوسرے اسم کے ملائے ہوئےاپنے معنی بتا سکتاہے۔ خود نہ مؤنث ہے نہ مذکر، دوسرے اسم سے مل کر مذکر یا مؤنث بن جاتا ہے۔

اسم تشبیہ اور اسم صفت میں فرق یہ ہے کہ صفت اپنے موصوف کی ذات کا جزو بن کر آتی ہے اور تشبیہ اپنے مشبہ کی ذات سے کوئی تعلق ذاتی نہیں رکھتی۔ تشبیہ اور صفت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ تشبیہ کے ساتھ چند حروف مقررہ بھی آتے ہیں اور اسم صفت اور موصوف کے ساتھ کوئی حرف نہیں آتا جیسے کالا آدمی، کالی عورت۔ ان کو اس لیے صفت کہا کہ موصوف کا رنگ سیاہ ہے اور تشبیہ میں ایک قسم کی نسبت ہوتی ہے جیسے تمھارے بال سنبل کی طرح پریشان ہیں، یعنی بالوں کو سنبل سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے، صرف صورت پریشانی ایکساں ہے۔

شہ نے پھاڑا ہے گریبانِ قبا گُل کی طرح


اس میں گریبانِ قبا حقیقت میں گُل نہیں ہے مگر صورت ظاہری میں گل کے مانند معلوم ہوتا ہے۔ یعنی تعلق ذاتی کا نام صفت اور تعلق فرضی کا نام تشبیہ ہے۔

ہے سپر کاندھے پہ یا شب ہے سحر کے پیچھے

یا کوئی ابر کا ٹکڑا ہے قمر کے پیچھے


اس میں سپر کو باعتبار سیاہی کے شب سے مثال دی، حقیقت میں سپر شب نہیں ہے بلکہ مانند شب ہے اس سے معلوم ہوا کہ سپر کو شب سے کوئی تعلق ذاتی نہیں ہے۔ دوسرے مصرع میں ابر کا ٹکڑا سپر کو کہا،یہ بھی تعلق ذاتی نہیں ہے تعلق فرضی ہے یعنی حقیقت میں سپر ابر کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ جو صفت ابر کے ٹکڑے میں ہے وہ سپر میں بھی ہے یعنی سیاہی، حقیقت میں یہ دونوں موصوف ایک صفت کے ہیں، یعنی سیاہ کے۔

یا جیسے کہیں کہ تم تو بچوں کے مانند روتے ہو، تم عورتوں کی طرح ڈرتے ہو، یہ امرود بعینہ سیب معلوم ہوتا ہے، یہ بندر تو ایسا اُچکتا ہے جیسے لنگور، یہ آدمی ہے یا حیوان۔

اسم تشبیہ اور صفت کے جملے میں یہ فرق بھی ہے کہ اس میں تشبیہ کے دونوں اسم کبھی مذکر یا مؤنث ہوتے ہیں۔ مگر اسم صفت کے جملے میں تذکیر یا تانیث موصوف کی صفت کو بھی قبول کرنا پڑتی ہے کیونکہ اسم صفت نہ مذکر ہے نہ مؤنث جیسے پرانا مکان، پرانی چھت۔ اس میں پرانا اور پرانی اپنے اپنے موصوف یعنی چھت اور مکان کے تابع ہیں اور جز و ہیں اپنے موصوف کے۔

قاعدہ: اسم صفت اردو میں کئی طرح استعمال ہوتا ہے یعنی اگر اسم صفت اور موصوف دونوں ہندی ہیں تو بے اضافت جیسے اندھا آدمی، اندھی عورت۔ اس میں اسم صفت ایسا ہے جس کے آخر میں بحالت تذکیر الف ہے اور وہ موصوف مؤنث کے ہمراہ یائے معروف سے بدل کر آتا ہے، جیسے اُجلا کپڑا، اُجلی دری، میلا گھر، میلی کوٹھری؛ اسی طرح پیلا، کالا، نیلا، اچھا یہ صورت خاص ہندی الفاظ کے لیے ہے۔

دوسرے وہ ہندی الفاظ جن کے آخر مذکر میں الف نہیں ہے وہ مذکر مؤنث اسم موصوف کے ساتھ نہیں بدلتے جیسے کُند چُھری، کند چاقو، لال کبوتر،لا ل مرغی۔

قاعدہ: بعضے اسم صفت عربی فارسی کے ایسے ہیں جو مذکر موصوف کے ساتھ یائے مصدری لگا کر لائے جاتے ہیں اور مؤنث کے ساتھ تانیث کا نون جیسے خبطی مرد، خبطن عورت؛ بعض میں یائے فاعلی لگا کر تذکیر و تانیث موصوف کے ساتھ بولتے ہیں آفتی مرد، آفتی عورت۔ بعض مؤنث ذی روح کے لیے مخصوص ہیں جیسے خیلا عورت، چربانگ دیدہ عورت۔ بعض اسم صفت فعل سے فاعل سماعی بنا لیے جاتے ہیں جیسے رونا لڑکا، رونی لڑکی یعنی رونے والا، جھگڑالو لڑکا، جھگڑالو لڑکی۔

قاعدہ: بعض اسم نکرہ میں یائے مصدری لگا کر اسم صفت بنائے جاتے ہیں، جیسے جنگی سپاہی، فوجی سوار۔ بعض اسمائے نکرہ ہند ی میں (یلی) لگا کر اسم صفت مؤنث بنا لیتے ہیں جیسے پتھریلی زمین۔

قاعدہ: اگر صفت موصوف دونوں ہندی ہیں تو صفت کا پہلے آنا اچھا ہے جیسے کالا آدمی جا رہا تھا،اندھا بیل کنویں میں گر پڑا۔ لیکن بعض اسمائے صفت موصوف کے بعد اچھے معلوم ہوتے ہیں جیسے ہزاری مل بڑا سوم ہے۔ اس میں سوم اسم صفت ہے لیکن اپنے موسوم کے بعد آیا۔

اگر اسم صفت فارسی اسم موصوف ہندی ہے تو بھی صفت پہلے آئے گی سیاہ مرچ، سرخ مرچ، بہادر آدمی، آبدار موتی۔ اگر اسم صفت ہندی ہے اور موصوف فارسی جب بھی صفت پہلے آئے گی، اُس نے ہولے ہولے اپنے کلوں پر تماچے مارے۔ اس میں ہولے ہولے صفت ہے تماچے موصوف ہیں۔

قاعدہ: جب اسم صفت کے آخر میں بحالت تذکیر الف ہوتا ہے اور موصوف کو جمع بولنا منظور ہوتا ہے تو اُسے یائے مجہول سے بدل دیتے ہیں جیسے ڈھیلے کرتے، کالے کبوتر؛ اور بحالت تانیث کالی کبوتری۔ لیکن صفت کی جمع مؤنث نہیں آتی، اس حالت میں موصوف کو جمع کرتے ہیں، کالی کبوتریاں۔

قاعدہ: جب صفت موصوف دونوں فارسی یا ایک فارسی ایک عربی ہو تو اُ س حالت میں صفت آخر میں آئے گی اور موصوف کو اضافت دے دیں گے جیسے ابر سیاہ، رخت کہنہ، شمشیر عریاں، مردم بیمار۔ اس حالت میں صفت کا پہلے بولنا اور فکِّ اضافت کرنا خلاف فصاحت ہے۔

قاعدہ: اردو میں بھی جب صفت کو مضاف الیہ بناتے ہیں جب بھی موصوف کو آخر میں لاتے ہیں جیسے دل کا میلا آدمی، آنکھ کی اندھی عورت۔

دوست دشمن اسمائے صفت ہیں ان کی تذکیر مضمر رہتی ہے۔ اس لیے میرا دوست، میرا دشمن، بولتے ہیں لیکن جب تذکیر و تانیث معلو م ہو تو تا بع بولا جاتا ہے، جیسے وہ عورت میری دشمن ہے، وہ مرد میرا دشمن ہے۔

حاصل صفت

[edit]

عربی فارسی اسم صفت میں جس کے آخر الف یا ہائے مخفی نہیں ہے یائے مصدری لگا کر حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے روشن، دشمن، بزرگ، سفید، سیاہ، عریاں، سیر، شوخ، بیکار، لازم، درکار، ضرور۔ ان کا حاصل صفت روشنی، دشمنی، بزرگی، سفیدی، سیاہی، عریانی، سیری، شوخی، بیکاری، لازمی، درکاری، ضروری آتا ہے۔

عربی کے اسم فاعل میں جبکہ وہ اردو میں اسم صفت ہوتے ہیں (تائے) تانیث لگانے سے حاصل صفت بن جا تے ہیں جیسے قانع ہادی سے قناعت اور ہدایت ارد و میں حاصل صفت ہیں۔ کبھی (یت) اضافہ کر کے حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے واقفیت، کاہلیت، جاہلیت حاصل صفت ہیں۔

بعض لوگ اسی طرح فارسی کے حاصل صفت پر (ے) زیادہ کر کے بے قاعدہ حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے دیر جو حاصل صفت اور مؤنث ہے اس کو دیری کہتے ہیں، یہ غلط ہے۔

بعض اسمائے صفت حاصل صفت کی تصریف قبول نہیں کرتے جیسے عبث، محض۔ بڑا اسم صفت ہے اس کی حاصل صفت بڑائی آتی ہے۔

قاعدہ: حاصل مصدر اور حاصل صفت میں فرق یہ ہے کہ حاصل مصدر ہمیشہ مصدر سے معنی مصدری کے لحاظ سے بنایا جاتا ہے اور کبھی مذکر کبھی مؤنث آتا ہے۔ لیکن حاصل صفت ہمیشہ اسم صفت سے بنایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ مؤنث بولا جاتا ہے۔

نیل فارسی اسم نکرہ ہے فارسی والے (ی) زیادہ کر کے صفت مؤنث اور مذکر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔

لیکن اردو میں اس کا دوسرا قاعدہ ہے وہ نیلا کو اسم صفت مذکر بنا کر نیلی کو اسم صفت مؤنث بناتے ہیں اور اس کا حاصل صفت نِلاہٹ بولتے ہیں۔ اسی طرح گرم سے گرما ہٹ، نرم سے نرماہٹ بنا لیتے ہیں۔

اکثر اسمائے صفت ایسے ہیں جو تذکیر و تانیث کے لیے تصریف قبول نہیں کرتے جیسے نرم، گرم ان کا حاصل صفت اگر اردو کے قاعدے سے آتا ہے تو وہ لازمی مؤنث ہوتا ہے۔

بعض فارسی کے اسم مفعول جو اردو میں بجائے اسم صفت آتے ہیں اور جن کے آخر میں (ہ) ہوتی ہے،حرف آخر گراکر (گی) زیادہ کر کے حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے پوشیدہ، پسندیدہ، آلودہ سے پوشیدگی، پسندیدگی، آلودگی۔

خاص اردو میں اسم صفت کی تصریف کا قاعدہ یہ ہے کہ اسم صفت ایک ہندی لفظ سے بنایا جاتا ہے جیسے میٹھ جو ہندی لفظ ہے اس کا اردو اسم صفت واحد تذکیر کے لیے میٹھا، جمع تذکیر کے لیے میٹھے، مؤنث واحد کے لیے میٹھی لیکن جمع مؤنث اسم صفت کی نہیں آتی اس لیے جمع مؤنث میٹھیاں جو قدما بولتے تھے، حال کے فصحا نے ترک کر دیں۔ اس کا حاصل صفت مٹھاس ہے اس کی جمع نہیں آتی۔

اردو میں حاصل صفت کئی قاعدے سے بناتے ہیں جیسے کھٹا اسم صفت ہے اس کی حاصل صفت کھٹاس۔ کالا اسم صفت ہے، اس کی حاصل صفت کالک ہے۔ پھیکا اسم صفت ہے، اس کی حاصل صفت پھکاس ہے۔ لال اسم صفت ہے، اس کی حاصل صفت لالی ہے۔ اردو میں حاصل صفت کی جمع بھی نہیں آتی۔ مٹھائی کو حاصل صفت سمجھنا غلطی ہے۔ اردو میں اسم نکرہ مؤنث ہے اور اس کی جمع مٹھائیاں بھی آتی ہے۔ چاہت حاصل صفت نہیں ہے حاصل مصدر ہے اس لیے کہ یہ چاہنامصدر سے بنایا گیا ہے۔