Jump to content

قواعد میر/لغت، اصطلاح، روزمرہ اور محاورے کا فرق

From Wikisource

لغت، اصطلاح، روزمرہ اور محاورے کا فرق


لغت لفظ کے اُ س معنی کو کہتے ہیں جو واضع نے وضع کیے ہوں اور حقیقی ہوں، اُس کا دوسرا نام حقیقت لغوی ہے۔ مارنا مصدر متعدی ہے اس کے لغوی معنی چوٹ لگانا ہیں اور چاند قمر کے معنی پر لغت ہے، رات کو چاند کی روشنی بہت صاف تھی، اُ س نے اپنے لڑکے کو بہت مارا۔ یہ دونوں لفظ اپنے وضعی معنی پر مستعمل ہوئےاس لیے ان کو حقیقت لغوی کہیں گے۔ لیکن مارنا قتل کرنا کےمعنی پر اصطلاح ہے یعنی لغت میں یہ معنی وضع نہیں کیے گئے تھے، گفتگوئےعام میں کثرت سے ا س خاص محل پر استعمال ہونے سے ایک جدید معنی پیدا ہو گئے رستم نے ایک شیر مارا، عیدو کی چاند گنجی ہوگئی۔

لغت اور اصطلاح میں معنوی تعلق ضرور رہتاہے جیسے مارنا کے معنی چوٹ لگانے کے ہیں اس نسبت سے اس کو قتل کرنا کے بھی معنی پر بولتے ہیں۔

محاورہ ان دونوں سے الگ ہے۔ محاورہ ایک لفظ میں نہیں ہوتا بلکہ ایک جملہ میں ہو تا ہے یا دو تین لفظوں میں۔

چھو کرنا، پھونکنا کے معنی پر محاورہ ہے۔

تمھارا لڑکا بالکل دھان پان ہے یعنی دبلا ہے۔

آئینہ اندھا ہے یعنی میلا ہے۔

وہ ڈال کا ٹوٹاہےیعنی عزت دار شریف ہے۔

اس کی رَتی زور پر ہے یعنی قسمت یاور ہے۔

اس بیان سے یہ معلوم ہو اکہ ہر لفظ موضوع کے لغوی معنی ضرور ہوتے ہیں اور بعض لفظوں کے ایک اصطلاحی معنی بھی ہوتے ہیں۔ ہر لفظ کے اصطلاحی معنی ہونا ضرور نہیں ہے۔ جس طرح اصطلاح کو لغوی معنی سے ایک خاص تعلق رہتا ہے محاورے میں بھی لغوی اور اصطلاحی معنی سے تعلق رہتا ہے۔ “آئینہ اندھا ہے”، اس میں بھی تعلق موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ جس آئینہ کی قلعی اُتر جاتی ہے وہ بے رونق ہو جاتا ہے اور اُس میں منہ نہیں دکھائی دیتا۔ بے رونق ہونے کے لحاظ سے آئینہ کو اندھا کہا۔

محاورہ اکثر اصطلاحی معنوں میں بنایا جاتا ہے۔

وہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا یعنی عزت دار ہے۔

اُس کے بال کھچڑی ہوگئے یعنی آدھے سفید آدھے کالے۔

روزمرہ وہ جملہ ہے جو لغوی معنی کے موافق استعمال کیا جائے، میں کل آؤں گا، تم کہاں ملو گے، صاحب ایک خط تمھارا پرسوں آیا اُس میں مندرج تھا کہ میں میرٹھ جاؤں گا، کاتب کی اجرت او ر کاغذ کی قیمت یہاں سے بھیج دی جائے گی۔

یہ سادہ جملے جس میں محض لغوی معنی لیے گئے ہیں روزمرہ میں داخل ہیں۔ روزمرہ کے استعمال میں مستند فصحا کی تقلید لازم آتی ہے۔ روٹی کو کھانا بولتے ہیں، پانی کو پینا، دال دَلنا، اناج پیسنا، صندل گِھسنا روزمرۂ فصحا ہے۔ اب کسی گاؤں کے لوگ ناواقفیت سے روٹی پینا اور پانی کھانا بولیں تو غلط ہے۔ اکثر لوگ دودھ کھانا بول جاتے ہیں، یہ بالکل غیر معتبر اور غلط ہے۔ ہر جملے کے استعمال کے لیے ہم کو تقلید کی ضرورت ہے اور جو لوگ اس تقلید سے باہر ہوجاتے ہیں ان کا کلام غیر مستند اور غلط ہوجاتا ہے۔