Jump to content

قواعد میر/مصدر کا بیان

From Wikisource

مَصدَر کا بیان


مصدر ایسا اسم ہے جس سے دوسرے فعل بن سکتے ہیں لیکن وہ خود کسی فعل سے نہیں بنتا۔ سنسکرت میں اسے “دھاتو” کہتے ہیں۔ مصدر کی علامت آخر میں “نا” ہے۔ دوسری علامت یہ ہے کہ اگر نا کو گرادیں تو اس کی جڑ باقی رہے جسے امر کہتے ہیں، جیسے آنا سے آ، کرنا سے کر، جانا سے جا، کھانا سے کھا۔ یہ جڑ ہر حالت میں قائم رہتی ہے۔

بعض مصدروں میں صرف نحو کے خلاف عام تغیر ہوگیا ہے اور امر کے حرف بھی بدل گئے ہیں جیسے کرنا جس کا امر کر ہے، اس کی ماضی کرا ہونا چاہیے تھی، لوگ کیَا بولنے لگے۔جانا جس کا امر جا ہے، اس کی ماضی قاعدہ سے جا ہونا چاہیے تھی لوگ گیا بولنے لگے۔ صرف یہی دو مصدر ایسے ہیں جو اختلاف استعمال سے بدل گئے۔

قاعدہ: علامت مصدر مشدد نہیں آتی۔گِنّا مصدر نہیں، اس لیے کہ اس میں تشدید ہے۔ دوسرے نا علامت نکالنے کے بعد صیغۂ امر باقی نہیں رہتا۔ تیسرے یہ کہ اس سے دوسرے فعل نہیں بن سکتے۔

اُردو میں مصدر کی چار قسمیں ہیں: اصلی، جعلی، فرعی، ترکیبی۔ اصلی مصدر کو وضعی بھی کہتے ہیں۔ اصلی مصدر وہ ہیں جن کی جڑ ہندی امر ہو۔ بنانا، ٹوٹنا، دھونکنا، کاٹنا، چھیلنا۔

جعلی یا غیر وضعی وہ مصدر ہیں جو اہلِ زبان نے کسی ہندی لفظ کو گھٹا بڑھا کرامر بنا لیا ہو اور اس امر پر علامت مصدر اضافہ کر کےمصدر بنا لیا ہو، جیسے کھٹ کھٹ اسم صوت ہے اس میں الف زیادہ کرکے کھٹکھٹا امر بنایا اس پر (نا) علامت مصدر زیادہ کر کے کھٹکھٹانا بنا لیا۔ اسی طرح پچتانا وغیرہ۔

فرعی وہ مصادرہیں جو غیر زبان کے اسم امر فعل حرف پر علامت مصدر کا اضافہ کر کے بنائے ہوں جیسے شرم سے شرمانا، گرم سے گرمانا، فرمود سے فرمانا، بر سے بر آنا، در سے در آنا۔

ترکیبی وہ مصدر ہیں جو اردو کے دو مصدروں سے یا ایک امر یا حاصل مصدر یا اسم ہندی یا ماضی یا کسی دوسرے مشتقات یا ماضی پر کوئی حرف زیادہ کرکے اور ایک دوسرا مصدر لگا کر بنالیں، جیسے آنے لگنا، چلنے دینا، لے جانا، ہٹ جانا، چل دینا، اُٹھ بیٹھنا، گھر آنا، بڑھ جانا، دکھ سہنا، پھل پانا، ٹھنڈک ڈالنا، لگّا لگانا، ہوکا ہونا، جی لگانا، ہلکان کرنا، کرتوت دکھانا، سویا کرنا، بیٹھا رہنا، سنائی دینا، دکھائی دینا۔

مصدر اسم مذکر ہے اس لیے جملے میں ا س کو مفعول مؤنث کے ساتھ معروف ی سے بدلنا ناجائز ہے، لکھنؤ کے فصحا خصوصاً پرہیز کرتے ہیں جیسے دال بگھارنی تھی، روٹی پکانی تھی نہیں بولتے بلکہ دال بگھارنا تھی، روٹی پکانا تھی بولتے ہیں مگر فصحائے دہلی بصورت اول استعمال کرتے ہیں اس لیے دونوں طرح بولنا جائز ہے۔ مصدر اسم ہے اس لیے وہ لازم اور متعدی نہیں ہوتا لیکن ا س سے جو صیغے نکلتے ہیں وہ لازم ہوتے ہیں یا متعدی ہوتے ہیں، اس مناسبت سے مصدر کو بھی لازم اور متعدی کہتے ہیں۔

لازم وہ فعل ہے جس میں کوئی مفعول بہ نہو اور اُس کا فعل اپنے فاعل کی ذات پر تمام ہوجائے جیسے آنا۔ اس میں آنا کا فعل اپنے فاعل کی ذات پر تمام ہوگیا۔

متعدی وہ فعل ہےجس کا فعل فاعل سے گزر کر مفعول کی ذات پر تمام ہو جیسے مارنا۔ اس میں ایک فاعل ہے جس نے مارا اور ایک مفعول ہے جس پر مار پڑی۔

قاعدہ: متعدی فعل کو تین طرح پہچان سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اُس کی ماضی میں صرف نے ضرور آئےگا۔ جیسے میں نے مارا، میں نے لکھا، میں نے دیا۔لیکن یہ علامت بعض مصادر میں نہیں آتی جیسے لانا۔دوسرے ایک مفعول بہ اس کے ساتھ ضرور ہوگا یعنی اگر سوال کیا جائے کسے مارا یا کس کو مارا تو جواب ہوگا اس کو۔ تیسرے جملہ بنانے میں علامت کو بھی اکثر ذی روح مفعول میں آتی ہے جیسے احمد نے حامد کو مارا۔

متعدی کے جملے میں اور دوسرے مفعول بھی آتے ہیں مگر وہ متعدی کی علامت کے لیے نہیں ہیں بلکہ متعلق فعل ہوجاتے ہیں، جیسے احمد نے محمود کو کوٹھے پر مارا۔اس میں کوٹھے پر متعلق فعل ہے۔

اسی طرح لازم کے جملے میں دوسرے مفعول یعنی مفعول فیہ، مفعول لہ، مفعول مطلق آتے ہیں۔ جیسے وہ مکان میں آیا، وہ چوروں کی چال چلا۔لیکن چونکہ صدور فعل کا مفعول پر واقع نہیں ہوا ہے، اس لیے اس کو لازم کہتے ہیں۔ یہاں مکان اسم ظرف ہے اور متعلق فعل واقع ہوا ہے۔ اسم ظرف مکان اور ظرف زمان مفعول فیہ میں آتا ہے جس سے کام کرنے کی جگہ یا وقت معلوم ہوتاہے۔ اسی طرح وہ رونے کو آیا، رونے کو مفعول لہ ہے۔

مفعول لہ وہ ہے جس میں کام کرنے کا سبب معلوم ہو یعنی رونے کے لیے آیا۔اس سے معلوم ہوا کہ لازم میں بھی علامت مفعول لہ یعنی کو دوسرے مفعول کے ساتھ آتی ہے۔ مگر حقیقت میں یہ مفعول بہ نہیں ہیں، اُردو میں مفعول بہ کے علاوہ اور تمام مفعول عارضی ہیں یعنی وہ مفعول حقیقی نہیں ہیں۔

فعل متعدی میں فاعل کا فعل ہمیشہ ایک مفعول حقیقی یعنی مفعول بہ کی ذات پر واقع ہوتا ہے، جس فعل میں ایسا نہ ہو وہ لازم ہے۔ اسی طرح متعدی اور لازم مصادر کو پہچاننا چاہیے۔ میں نے دیکھا، معلوم ہوا کہ دیکھنے کا کام ایک مفعول کی ذات پر ختم ہوا۔میں اٹھا، اس میں اٹھنا کا فعل فاعل کی ذات پر ختم ہوا۔ پہلا متعدی اور دوسرا لازم۔

اب لازم میں ایک مفعول عارضی لگا کر کہا جائے میں کرسی سے اٹھا۔ اس میں کرسی مفعول ہے مگر اٹھنے کا فعل اسی مفعول پر نہیں ختم ہواکیونکہ کرسی ظرف زمان ہے اس لیے وقوع فعل کی جگہ ہے اور چونکہ اپنے فاعل پر جملہ ختم ہوگیا ہے اس لیے لازم ہے۔

فعل لازم کے جملے میں جار و مجرور بھی یہی مفعول بن کر آتے ہیں۔ جیسے جانامصدر لازم ہے اس کا جملہ اس طرح بنائیں کہ لکھنؤ سے دہلی تک گیا۔ اس میں دہلی مفعول ہے، تک حرف جار ہے اس لیے جار مجرور مل کر متعلق فعل ہوا۔

قاعدہ: افعال متعدی میں کبھی مفعول بہ کی علامت بدل بھی جاتی ہے جیسے میں نے نظر کی۔مصدر متعدی ہے، اسے اس طرح بولیں گے: میں نے کنگن پر نظر کی تو اُسے کھوٹا پایا۔ یہاں پر کے معنی تک کے نہیں ہیں بلکہ کو کے ہیں۔ نظر کرنا دیکھنے کے معنی پر ہے یعنی کنگن کو دیکھا۔

قاعدہ: معنی کے لحاظ سے بہت سے مصدرِ لازم ایسے ہیں جو متعدی بھی بن جاتے ہیں جیسے قرار پانا جب آرام کرنا کے معنی پر بولا جاتا ہے تو متعدی ہوتا ہے، مدت کے بعد رات کو جب ٹھنڈی ہوا چلی ہے تو میں نے قرار پایا یعنی قرار کو پایا۔ اور جب طے ہونے کے معنی پر بولتے ہیں تو لازم ہوتا ہے، جیسے آخر کو یہ امر قرار پایا یعنی یہ بات طے ہوئی۔ اکثر مصدر اُردو میں ایسے ہیں لیکن وہی ہیں جو کسی اسم کے ساتھ مستعمل ہیں۔

اسی طرح کہنا مصدر متعدی ہے، لوگوں نے اس کا تعدیہ بدو مفعول خلاف قاعدہ صرف نحو کہلانا بنا لیا ہے مگر فصحا کہوانا بولتے ہیں کیونکہ یہ قاعدہ سے درست ہے۔ کہلانا میں دوسری غلطی یہ ہوگئی ہے کہ آج کل لوگ اس کو متعدی مجہول کے معنی پر بولنے لگے۔ جیسے (وہ جو محمود محمود) کہلاتے ہیں یعنی محمود پکارے جاتے ہیں یہ بالکل غیر فصیح اور قابل ترک ہے۔ اس طرح بولنا چاہیے (وہ جو محمودمحمود کہے جاتے ہیں)۔

کرنا کے ساتھ جتنے اسما فارسی عربی ملا کر مصدر بنائے جاتے ہیں وہ متعدی ہوتے ہیں اور فعل کی طرح تذکیر و تانیث میں اپنے مفعول کے تابع رہتے ہیں جیسےکہنا کی ماضی مطلق یہ ہے: میں نے کہا۔ اگر فاعل عورت ہے تو بھی کہے گی: میں نے کہا۔ مرد ہے تو بھی کہے گا: میں نے کہا۔ اسی طرح میں نے قبول کیا، میں نے رد کیا، میں نے منظور کیا، میں نے تحریر کیا، میں نے تجویز کیا، میں نے پسند کیا، میں نے روانہ کیا۔ اس کے بعد اگر جملے میں کوئی مفعول ہوگا تو اس کی اطاعت فعل کو کرنا ہوگی، جیسے میں نے خدمت قبول کی یا میں نے حکم قبول کیا۔

مگر اس طرح کے فعل اُردو اسم ملا کر نہیں بنا سکتے، ہندی کا اسم ایسی جگہ بعض وقت اسم رہتا ہے اور فعل اصلی اس کی اطاعت کرتاہے یعنی جزو مصدر نہیں بنتا، جیسے بات کرنا کی جب ماضی بنائیں گے تو کرنا کو تانیث سے بولیں گے جیسے میں نے بات کی۔ اسی طرح کام مذکر ہے، اس کا فعل اپنے مفعول کی اطاعت کرےگایعنی مذکر بولا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُردو مصدر میں عربی فارسی کا اسم ملا کر مصدر مرکب بنا سکتے ہیں لیکن ہندی اسم ملا کر مصدر نہیں بنا سکتے کیونکہ ایسا مرکب فعل کی طرح تابع اسم نہیں ہوتا ہے بلکہ محض مصدر اپنے اسم کی اطاعت کرتا ہے۔ ہونا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں وہ لازم ہیں اور لازم ہمیشہ اپنے فاعل پر ختم ہوتاہے ان میں کوئی مفعول نہیں ہوتا۔ عورت کہتی ہے میں بیدار ہوئی، مرد کہتا ہے میں بیدار ہوا۔ لیکن اس میں جو اسم صفت عربی فارسی کے لگا کر مصدر بنائے جاتے ہیں وہی مصدری حالت میں رہتے ہیں اور اپنی تذکیر و تانیث کے ساتھ بولے جاتے ہیں جیسے مجھے خوف ہوا۔ اس میں خوف اسم مذکر تھا اس لیے ہوا کہا گیا۔ دہشت ہوئی، دہشت اسم مؤنث ہے اس لیے ہوئی کہا گیا۔

ترکیبی مصدر میں بعض ایسے ہیں جو اپنے فعل اول کے مطابق لازم اور متعدی رہتے ہیں اور بعض فعل دوم کے تابع ہوتے ہیں۔دینا کے ساتھ جتنے مصدر بنائے جاتے ہیں اُن میں فعل اول اگر لازم ہے مصدر بھی لازم بولا جاتا ہے اور متعدی ہے تو متعدی جیسے ستا دینا، پٹک دینا، گُھرک دینا، لگا دینا، سنا دینا، دکھا دینا، مار دینا، کہہ دینا، رکھ دینا، کاٹ دینا یہ سب متعدی ہیں۔ چل دینا، رو دینا لازم ہیں۔

جانا کے ساتھ جتنے فعل آتے ہیں چاہے وہ متعدی ہوں یا لازم سب لازم بولے جاتے ہیں نکل جانا، اُٹھ جانا، بیٹھ جانا، سو جانا، چھوٹ جانا، لرز جانا، دھو جانا، سہہ جانا یہ سب متعدی ہیں مگر لازم بولے جاتے ہیں۔ مر جانا، اُترجانا،بگڑ جانا یہ لازم ہیں، لازم بولے جاتے ہیں۔

اُٹھنا کے ساتھ جتنے مرکب مصادر آتے ہیں لازم ہوں یامتعدی، سب لازم ہوتے ہیں۔ رو اُٹھنا، بول اُٹھنا، چلا اُٹھنا لازم ہیں۔ کہہ اٹھنا، پکار اٹھنا متعد ی ہیں مگر لازم بولے جاتے ہیں۔

رہنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم بولے جاتے ہیں جیسے مر رہنا، جا رہنا، آ رہنا،پڑ رہنا۔

چلناکے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہوتے ہیں۔ لے چلنا،اتر چلنا، بہ چلنا، مار چلنا۔

رکھنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب متعدی ہوتے ہیں۔ جیسے پکڑ رکھنا، دیکھ رکھنا، اٹھا رکھنا، لگا رکھنا، بچا رکھنا، کاٹ رکھنا، بدل رکھنا۔

ڈالناکے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں متعدی ہوتے ہیں جیسے کاٹ ڈالنا، چھانٹ ڈالنا، دیکھ ڈالنا، پُن ڈالنا، مار ڈالنا، بھون ڈالنا، پیس ڈالنا۔

کھجانا مصدر متعد ی ہے لیکن اس کے ساتھ جتنے ترکیبی مصدر آتے ہیں وہ لازم اور متعدی دونوں بولے جاتے ہیں، جیسے سر کھجانا، ناک کھجانا، ہتھیلی کھجانا۔ اس کو لازم بھی کہیں گے، میری ناک کھجائی اور متعدی بھی، میں نے اپنی ناک کھجائی۔

سکنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں۔ چل سکنا، اٹھ سکنا، بیٹھ سکنا، پکڑ سکنا، مار سکنا، رو سکنا، دیکھ سکنا، جا سکنا، کھول سکنا، باندھ سکنا، لگا سکنا، دِکھا سکنا۔

لگنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں۔ دھونے لگنا، دیکھنے لگنا، رونے لگنا، کھانے لگنا، بجانے لگنا، نکلنے لگنا، سننے لگنا، مارنے لگنا، پینے لگنا، دیکھنے لگنا، مرنے لگنا، جانے لگنا۔

لانا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب متعدی ہیں اگرچہ ان کے ساتھ علامت فاعل (نے) نہیں آتی۔ پکڑ لانا، موڑ لانا،اٹھا لانا، لگا لانا، مار لانا، توڑ لانا۔ ان کو اس طرح بولیں گے، شیر کو پکڑ لایا۔ اس میں نے نہیں ہے مگر مفعول بہ موجود ہے اس لیے متعدی ہے۔

چُکنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں جیسے کھا چکنا، رکھ چکنا، ڈال چکنا، پی چکنا، چکھ چکنا۔

سکنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں جیسے آسکنا، سُن سکنا۔

بعض مصادر لازم ایسے ہیں جو متعدی نہیں بن سکتے۔ آنا، جانا، ہونا، کانپنا، لرزنا۔ بعض متعدی ایسے ہیں جن کے لازم نہیں بن سکتے جیسے لانا، ڈالنا، چُرانا، سونپنا، کرنا۔

قاعدہ: جومصادر لازم میں سے متعدی مستعمل ہیں اور ان کے حرف اول کو فتح ہے ان کے تعدیہ بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ علامت مصدر سے پہلے ایک الف زیادہ کر دیتے ہیں جیسے چلنا سے چلانا، بڑھنا سے بڑھانا، پھیلنا سے پھیلانا، بننا سے بنانا، بسنا سے بسانا، رکھنا سے رکھانا۔ لیکن اس قاعدہ سے بہت سے مصدر مستثنیٰ ہیں جیسے پھٹنا سے پھوڑنا، کٹنا سے کاٹنا۔ اگر مصدر لازم کی علامت دور کرنے کے بعد امر میں واؤ باقی رہے تو اُسے گرا کر ایک الف زیادہ کر کے متعدی بنا لینا چاہیے جیسے سونا سے سلانا، رونا سے رلانا۔

قاعدہ: اگر مصدر لازم ہے او ر اس کے امر میں لام ما قبل مضموم ہے تو متعدی بنانے میں الف یا واؤ زیادہ کریں گے جیسے دُھلنا سے دُھلانا، گھلنا سے گھلانا یا جیسے کھلنا سے کھولنا، گھلنا سے گھولنا۔ اور اگر ایسے مصدر میں لام سے قبل واو مضموم ہے تو اسے ساقط کر دیں گے جیسے بھولنا سے بھلانا، پھولنا سے پھلانا۔

قاعدہ: ایسے تمام مصدر لازم جن کے امر کے آخر میں کاف ہے الف زیادہ کر کے متعدی بنائے جاتے ہیں۔ بھٹکنا، کھٹکنا، اٹکنا، ٹھٹکنا، چٹکنا، چمکنا، مٹکنا، اٹکنا، سسکنا، تھپکنا، تھکنا، پھڑکنا، بہکنا، لچکنا، چرکنا، سرکنا، چھلکنا، پکنا، ہمکنا۔ اِس کُلیہ سے تکنا مستثنیٰ ہے، اس کی متعدی تاکنا آتی ہے۔

ماضی بنانے کا قاعدہ حصر استقرائی ==

مصدر کی علامت دور کرنے کے بعدامر کے آخر میں اگر حرف علت (الف یا واؤ) ہے تو حرف یا زیادہ کرکے ماضی مطلق بنا لیں گے جیسے لانا سے لایا، کھانا سے کھایا، پانا سے پایا، چمکانا سے چمکایا، سونا سے سویا، رونا سے رویا، بونا سے بویا۔ کھونا سے کھویا۔ اور اگر حرف علت (ے) ہے تو اسے حذف کر دیں گے جیسے دینا سے دیا، پینا سے پیا، لینا سے لیا۔ لیکن اس قاعدہ سے جانا مستثنیٰ ہے اس کی ماضی گیا بنتی ہے اور اگر علامت مصدر نکالنے کے بعد امر کے آخر میں حرف علت نہ ہو تو محض الف زیادہ کر کے ماضی بنا لیں گے۔ مصدر متعدی ہو یا لازم دونوں میں یہی کلیہ قائم رہے گا۔ جیسے رکھنا سے رکھا، بولنا سے بولا،کہنا سے کہا، مارنا سے مارا، جھکنا سے جھکا، دیکھنا سے دیکھا۔ اس قاعدے سے کرنا مستثنیٰ ہے جس کی ماضی کیا آتی ہے۔