قیامت ہے جو ایسے پر دل امیدوار آئے
Appearance
قیامت ہے جو ایسے پر دل امیدوار آئے
جسے وعدے سے نفرت ہو جسے ملنے سے عار آئے
مری بے تابیاں چھا جائیں یارب ان کی تمکیں پر
تڑپتا دیکھ لوں آنکھوں سے جب مجھ کو قرار آئے
مٹا دوں اپنی ہستی خاک کر دوں اپنے آپے کو
مری باتوں سے گر دشمن کے بھی دل میں غبار آئے
اجازت مانگتی ہے دخت رز محفل میں آنے کی
مزا ہو شیخ صاحب کہہ اٹھیں بے اختیار آئے
خدا جانے کہ وہ بیخودؔ سے اتنے بد گماں کیوں ہیں
کہ ہر جلسے میں فرماتے ہیں دیکھو ہوشیار آئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |