Jump to content

لال قعہ کی جھلک ظرافت آمیز

From Wikisource
لال قعہ کی جھلک ظرافت آمیز
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319514لال قعہ کی جھلک ظرافت آمیزناصر نذیر فراق دہلوی

بہادر شاہ ابو ظفر کے عہد میں غدر سے پہلے دو داستان گو شہر میں مشہور تھے۔ بڑے عبد اللہ خاں اور چھوٹے عبد اللہ خاں۔ دونوں کے دونوں اپنے فن میں کامل تھے۔ بڑے عبد اللہ خاں اکثر حضور والا کو داستان سناتے تھے اور حضور والا پسند فرماتے تھے۔ میر کاظم علی دہلوی جو داستان گوئی میں فرد تھے، انہیں کے شاگرد تھے اور میر باقر علی دہلوی انہیں اپنے ماموں میر کاظم علی صاحب کے داستان میں شاگرد بے نظیر تھے، جو حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔رات کا وقت تھا۔ حضور والا چھپر کھٹ پر لیٹے تھے۔ حکیم احسن اللہ خاں صاحب چھپر کھٹ کے پاس بیٹھے تھے۔ عبد اللہ خاں نے حسب دستور داستان شروع کرنے سے پہلے یہ لطیفہ بیان کیا کہ امر گڑھ کے قلعہ کے پاس چوک میں دو مسافر یوں بات چیت کر رہے تھے،’’آپ کی وضع سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔‘‘ ’’جی ہاں! میں لکھنؤ کا باشندہ ہوں۔ مگر آپ کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دہلی والے ہیں۔‘‘ ’’بیشک میں دہلی رہتا ہوں۔ لکھنوی صاحب! یہ تو فرمائیے، آپ یہاں کیوں آئے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ لکھنوی میں امیروں کو میٹھی میٹھی باتیں سناتا ہوں۔ آپ کیا شغل رکھتے ہیں؟دہلوی میں بات میں رفو کرتا ہوں۔لکھنوی ہم تم اس راجہ کے دربا رمیں چلیں اور اپنا ہنر دکھائیں۔دونوں کی سرشام راجہ تک پہنچ ہوگئی۔ راجہ نے کہا، ’’کچھ بیان کرو۔‘‘ لکھنوی حضور یہ فددی آج ہی آپ کے شہر میں داخل ہوا ہے۔ شہر سے ملی ہوئی ندی جو بہتی ہے اس میں ٹخنوں ٹخنوں پانی تھا۔ اتفاقاً ایک بیل ندی میں اترا، اس کا پاؤں پانی میں پھسلا۔ گرا اور گرتے ہی بھسم ہوگیا اور ا س کا ریشہ ریشہ پانی میں بہہ گیا۔راجہ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔دہلوی حضور ان کا کہنا سچ ہے۔ بیل کی بیٹھ پر سوکھا چونہ لدا ہوا تھا۔ بیل کے گرتے ہی چونہ بجھا اور بیل کو گلا کر اس کی بوٹی بوٹی کردی۔راجہ اس حاضر جوابی سے بہت خوش ہوا اور دونوں کو پچاس روپیہ دے کر رخصت کیا۔ راجہ کے محل سے نکل کر لکھنؤ والے نے دہلی والے سے کہا، ’’کل پھر ہم تم مل کر راجہ کے یہاں چلیں گے۔‘‘ دہلی والے بولے میں تمہاری بات میں رفو نہیں کرسکتا۔ تم بے تکی باتیں بناتے ہو۔ کجا سوکھی ندی میں بیل کا گرنا اور کجا اس کا بھسم ہوجانا وہ تو مجھے سوجھ گئی اور بات میں رفو ہوگیا۔ (۲)حسن بانو ایسے گھر میں بیاہی آئیں، جس میں سوائے ان کے دولھا، ولایت بیگ کے دوسرا نہ کوئی مرد تھا نہ کوئی عورت تھی۔ البتہ حسن بانو کے جہیز میں ایک لونڈی آئی تھی، جس کا نام کیتگی تھا۔ جب ولایت بیگ نے پینس سے نکال کر دولہن کو محل میں مسند پر لاکر بٹھایا، تو کیتگی لونڈی بولی، ’’دولہن بڑی نازک مزاج ہیں۔ سچ مچ پھول سونگھ کر جیتی ہیں۔ بس ایک چڑیا کی جیب اور ایک مانڈہ کا پھپولا کھاتی ہیں۔ اس کا بندوبست روز کردیا کیجئے۔ اور خدا رکھے آپ کو سب طرح کے کھانے پکاکر میں کھلایا کروں گی۔‘‘ ولایت بیگ اس بات کو سن کر حیران ہوگیا اور اس نے کہا، ’’مانڈہ کیتگی تم پکایا کرنا۔ اور چڑیا کی جیب میں روزانہ کاٹ دیا کروں گا۔‘‘ اس بات کو چھ مہینے ہوئے۔ میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے سہنے لگے۔ ولایت بیگ نے اپنے یار دوستوں سے کہا، ’’میری بیوی ایسی کم خوراک ہے کہ رات دن میں ایک چڑیا کی جیب اور مانڈہ کا ایک پھپولا کھاتی ہے۔‘‘ یاروں نے کہا، ’’مرزا تمہاری جورو تمہیں احمق بناتی ہے۔ تم اس کی باتوں میں نہ آؤ۔ اور وقت بے وقت چھپ کر اس کے کھانے پینے کو جانچو۔‘‘ مرزا کے دل کو یاروں کا کہنا لگ گیا اور ایک دن اس نے حسن بانو سے کہا، ’’آج رات کو میں گھر نہیں آؤں گا۔ دوستوں کے ساتھ جلسہ میں رہوں گا۔ تم شام ہوتے ہی گھر کا درواز بند کرلینا اور تم دونوں ہوشیار رہنا۔‘‘ یہ بہانہ کر کے وہ کوٹھے پر چلا گیا اور چھپ کر بیٹھ رہا۔ بیوی سمجھی میاں جلسہ میں گئے۔ مغرب سے پہلے دروازے کی کنڈی لگا لی اور بیوی باندی کھاپی کر سائبان میں سو رہیں۔ ایک پہر کے بعد بیوی کی آنکھ کھلی اور وہ اپنے پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گئی، اور کہنے لگی، ’’کیتگی رات کتنی؟‘‘ کیتگی بولی، ’’بیوی پہلا پہرا۔‘‘ بیو ی نے کہا، ’’مارے بھوک کے میرا دم نکلا جاتا ہے، تو کچھ پکاکر جلدی لا۔‘‘ کیتگی نے کہا، ’’ہر طرح کی جنس خدا رکھے گھر میں ہے، جو حکم ہو۔‘‘ بیوی سیر بھرتل، سیر بھر قند، سیر بھر گھی، لے کر کُٹ بنالا۔ لونڈی تل کٹ بنالائی۔ حسن بانو تل کٹ سب ڈکار گئی، اور بچھونے پر پڑکر سوگئی۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو اس نے کہا، ’’کیتگی رات کتنی؟‘‘ کیتگی نے کہا، ’’دوجا پہرا۔‘‘ حسن بانو نے کہا، ’’اری کمبخت مارے بھوک کے میری جان ہوا ہوئی۔ کچھ پکاکر جلدی لا۔ دیکھ سیر بھر میدہ، سیر بھر کھانڈ، سیر بھر گھی کی ٹکیہ پکالا۔‘‘ لونڈی نے روغنی روٹ پکاکر حسن بانو کو کھلا دیا اور وہ پھر سوگئی اور کچھ دیر بعد پھر اس کی آنکھ کھلی تو اس نے کہا، ’’کیتگی رات کتنی؟‘‘ لونڈی نے کہا، ’’تیجا پہرا۔‘‘ حسن بانو بولی۔ اری مردار بھوک کے مارے میرا دم نکلا۔ کچھ پکاکر فوراً لا۔ لونڈی نے کہا، ’’جو حکم ہو۔‘‘ حسن بانو ’’دو سیر مونگ کی کھچڑی، سیر بھر گھی لے کر چٹ پٹ پکاکر حاضر کر۔‘‘ لونڈی کھچڑی پکا لائی اور حسن بانو اسے چاٹ کر پڑ گئی اور خراٹے لینے لگی۔ پھر جو یکایک اس کی آنکھ کھلی تو اس نے کہا، ’’کیتگی رات کتنی؟‘‘ لونڈی نے کہا، ’’بیگم چوتھا پہرا۔‘‘ حسن بانو ’’ہائے اللہ وہ بندی بھوکی مری۔ ارے نا نصیب بھوک نے میرا کام تمام کیا۔ تو دوسیر روا، دو سیر کھانڈ، سیر بھر گھی لے پنجیری بنا لا۔ اسے پھانک کر دو گھونٹ پانی پی کر اپنا دم تھام لوں گی۔‘‘ پنجیری بن کر آئی۔ حسن بانو نے کھائی، پھر جو پڑکر سوئی تو دن کے آٹھ بجے اٹھی۔ اور اس نے دیکھا میاں انگنائی میں ایک ہنڈیا لئے بیٹھے ہیں، جس کا منہ کپڑے سے بندھا ہے۔ بیوی اٹکھیلیاں کرتی میاں کے پاس آکر کہنے لگیں، ’’اچھی صبح ہی صبح کیا لائے ہو؟‘‘ میاں نے ہانڈی کا منھ کھولا۔ اور اس میں سے کالا سانپ پھنپھنا کر کھڑا ہوگیا۔بیوی (سانپ کو دیکھ کر) ’’وہی میاں یہ کالا۔‘‘ میاں ’’بیوی تل کٹ بھرا کنڈالا۔‘‘ بیوی ’’وہی میاں یہ موٹا۔‘‘ میاں ’’بیوی بھوبل میں کا روٹا۔‘‘ بیوی ’’وہی میاں یہ چلّے۔‘‘ میاں ’’بیوی کچھڑی میں کھی ہِلے۔‘‘ بیوی ’’وہی میاں اسے ڈھانکو۔‘‘ میاں ’’بیوی سارے گھر کا آٹا پھانکو۔ بیوی تو کوئی بلا نوش عورت ہے، منہ سوئی پیٹ کوئی، عورت کا قاعدہ ہے کہ مردوں کو طرح طرح سے ستاتی ہیں۔ مجھ سے کہا، میں چڑیا کی جیب اور مانڈہ کا پھپولا کھاتی ہوں۔ اور درپردہ ایک بیل کا راتب زہر مار کرتی ہے لعن ہے ایسے ہوکے پر۔‘‘ (۳)پودینہ نام شاہ عالم کے عہد میں ایک نقال تھا۔ بادشاہ اسے مہربانی اور قدر کی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ اکثر اوقات دربار میں حاضر رہتا تھا۔ یہاں تک عنایت تھی کہ بادشاہی جلوت اس کے واسطے خلوت کا حکم رکھتی تھی، ایک روز بادشاہ کو کسی تقریب سے اس نے ننگا دیکھ لیا تھا اور یہ بات بادشاہ پر بھی ظاہر ہوگئی تھی۔ بادشاہ کو نہایت غصہ آیا۔ یہ بھی اس وقت حاضر تھا اور سامنے سنتری پہرہ پر ٹہل رہا تھا۔ اس سے کہا کہ اس نالائق کو حوالات میں رکھو۔ اس کو اس وقت تو کچھ بن نہ پڑی۔ حکم حاکم مرگ مفاجات، ناچار سنتری کے ساتھ ہولیا۔اس سے پہلے کہ سنتری کچھ اس کی نسبت کہے، جھٹ بول اٹھا کہ، ’’داروغہ صاحب اس سنتری سے کچھ خطا سرزد ہوئی ہے۔ حضور والا کا حکم ہے کہ یہ حوالات میں رکھا جائے۔‘‘ سنتری نے کہا، ’’نہیں اس کے واسطے حوالات کا حکم ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’لو اور سنو۔ دروغ گویم بر روئے تو۔ حکم تیرے واسطے ہوا۔ حوالات میں بھگتوں۔ داروغہ کو یقین تھا کہ یہ تو بادشاہ کی ناک کا بال ہورہا ہے۔ اس کو بادشاہ حوالات کا حکم کیوں دیتے۔ بیشک اس سنتری کے واسطے حکم ہے۔ کچھ اس سے قصور ہوا ہوگا۔ پودینہ سنتری کو حوالات میں پھنسواکر پھر بادشاہ کو آداب بجالایا۔بادشاہ نے کہا، ’’ناشدنی تو نے پھر اپنا روئے سیاہ دکھایا۔ ہم نے تجھے حوالات کا حکم دیا تھا۔‘‘ کہا، ’’خداوند فدوی اس سنتری کو حوالات سپرد کر تو آیا۔‘‘ بادشاہ نے اس کی بات پر مسکراکر منہ پھیر لیا اور حکم دیا کہ ’’یہ نامعقول دربار میں حاضر نہ ہوا کرے۔‘‘ کچھ دن اسی طرح گزرے۔ آخر ایک دن باغبان کو کچھ روپیہ دیے کہ مجھ کو ٹوکرے میں بند کر کے دربار میں لے چل۔ باغبان حضور والا کے لئے کچھ گلدستہ بناکر اور پودینہ کو ٹوکرہ میں بند کر کے دربار میں لے پہنچا۔ گلدستہ پیش کیے۔ بادشاہ نے پوچھا، ’’اس ٹوکرہ میں کیا ہے؟‘‘ آپ جلدی سے ٹوکرے میں سے بولے، ’’حضور وہی آپ کا پودینہ ہے۔‘‘ بادشاہ ہنس دیے اور قصور معاف کردیا۔ (۴)جاننے والے جانتے ہیں کہ عرفی اکبر کے عہد میں ایک مشہور شاعر گزرا ہے۔ ایک روز اکبر فتح پور سیکری جارہے تھے۔ عرفی اور فیضی بھی حاضر تھے۔ راستہ میں بادشاہ نے ایک بٹیا دیکھی۔ دونوں طرف سبزہ اور بیچ میں ایک سیدھی لکیر۔ بادشاہ نے عرفی سے مخاطب ہوکر کہا، ’’یہ بٹیا اس وقت کیسی خوبصورت اور اچھی معلوم ہوتی ہے۔ ادھر ادھر سبزہ بیچ میں ایک سیدھی اور سفید تحریر۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی معشوق کے سر کی مانگ ہے۔ یا آسمان نیلی فام پر کہکشاں ہے۔‘‘ عرفی نے جو بادشاہ کا میل اس طرف دیکھا تو فوراً فی البدیہہ ایک شعر اس مضمون پر کہہ کر بادشاہ کو سنایا۔این سطرے جا داہا کہ بصحرا نوشتہ انداحوال رفتہ ایسٹ کہ از پانوشتہ اندبادشاہ نے نہایت تعریف کی۔ دو تین روز کے بعد فیضی اور بادشاہ دونوں بجرہ میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہے تھے۔ اکبر نے فیضی سے کہا، ’’اس روز عرفی کا شعر سنا؟‘‘ فیضی نے کہا، ’’غلام نے سنا تھا۔‘‘ اکبر نے کہا، ’’اس موقع کے لحاظ سے تم بھی کچھ کہو۔‘‘ فیضی نے دریا کی روانی دیکھ کر کہا،این سطر موجہا کہ بدریا نوشتہ انداحوال گریہ ایست کہ از مانوشتہ انداکبر پھڑک اٹھے اور کہا، ’’بھئی تم نے نرالی بات پیدا کی ہے۔ مگر انصاف شرط ہے کہ پہلا شعر عرفی کا ہی ہے۔‘‘ فیضی نے کہا، ’’اس میں کیا شک ہے۔‘‘ (۵)عالمگیر بادشاہ کے زمانہ میں ایک شخص فولاد خاں نامی شیدی دلی میں کوتوال تھا۔ ایک روز بازار میں پالکی پر سوار چلا جاتا تھا۔ اتفاقاً ادھر ایک آزاد فقیر چلا آتا تھا۔ فولاد خاں کو دیکھ کر موقع سے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ جب فولاد خاں کی پالکی آزاد کے پاس آئی تو کہنے لگا، ’’اوبے انگیٹھی کے کوئلہ کچھ ہمیں بھی۔‘‘ اس واہیات بات کو سن کر فولاد خاں آگ بگولہ ہوگیا۔ اور اپنے نوکر کی طرف اشارہ کیا کہ اس بدمعاش کو دھکے دو۔ نوکروں نے دھکے دینے شروع کئے۔ آزاد کہنے لگا، ’’بابا چٹخو نہیں، چٹخو نہیں۔‘‘ یہ بات فولاد خاں کو پسند آئی اور آزاد کو انعام دیا۔ آزاد نے انعام لے کر دعا دی کہ بابا لال رہو۔ (یعنی کوئلہ کی مناسبت سے یہ باتیں کہیں۔) (۶)عالمگیر بادشاہ حیدرآباد میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک روز نعمت خاں عالی سے فرمایا کہ، ’’کیوں نعمت خاں پہلے حیدرآباد کا کیا نام تھا؟‘‘ عرض کیا، ’’فرخندہ بنیاد حیدرآباد۔‘‘ بادشاہ نے فرمایا، ’’اور اب دارالجہاد حیدرآباد۔‘‘ نعمت خاں نے کہا کیا شک ہے۔ حضور معلیٰ نے دین کو از سر نوزندہ کیا ہے کوئی سنت و فرض ایسا نہ ہوگا، جو حضور نے ادا نہ کیا ہوگا۔ مگر ایک سنت بندگان عالی سے ادا نہ ہوئی۔ اگر وہ بھی ادا ہوجائے تو کوئی سنت باقی نہ رہے۔ عالمگیر نے پوچھا وہ کیا سنت باقی ہے۔ کہا، سرورِ کائنات نے گدھے کو بھی اپنی سواری سے شرف بخشا ہے۔ عالمگیر نے کہا بیشک یہ سنت رہی جاتی ہے۔ اچھا کل ہم گدھے پر سوار ہوں گے۔اراکین سلطنت نے جو یہ بات سنی تو ہوش اڑ گئے۔ آپس میں کہنے لگے اگر بادشاہ حیدرآباد میں گدھے پر سوار ہوکر نکلے تو بڑا غضب ہوگا۔ نعمت خان عالی کو خدا غارت کرے۔ یہ افترا پردازیاں اسی فیلسوف کی ہیں۔ اب اس کا علاج یہ ہے کہ اس کی چل کر خوشامد کرو، ورنہ یقین ہے کل بادشاہ گدھے پر ضرور سوار ہوں گے۔ چنانچہ سب مل جل کر نعمت خاں عالی کے ہاں پہنچے اور کہنے لگے، بھئی خدا کے واسطے یہ کیا آگ لگائی ہے۔ بادشاہ کی دور دور بدنامی ہوگی اور تمہارا کچھ نہ جائے گا۔نعمت خاں نے کہا، خالی خوشامد سے کام نہیں چلتا۔ کچھ دلواؤ تو بادشاہ کو گدھے کی سواری سے روکوں۔ سب امرا نے کہا، جو تم کہو۔ نعمت خاں نے کہا کہ ایک ایک مہینہ کی تنخواہ سب میرے حوالہ کیجئے۔ سب نے وعدہ کیا کہ ہم ایک مہینہ کی تنخواہ تم کو دے دیں گے۔ نعمت خاں نے کہا تو میں بادشاہ کو بھی گدھے پر نہیں چڑھنے دوں گا۔ دوسرے دن بادشاہ کے لئے ایک گدھا زین سے سجاکر لایا گیا۔ نعمت خاں وقت پر پہنچ گئے تھے اور بادشاہ سے کہا، ظل سبحانی نے تمام سنتیں ادا کردی ہیں۔ میری رائے ناقص میں اس سنت سے باز رہیں، کیونکہ حضور تمام سنتیں ادا کرچکے ہیں۔صرف ایک یہ سنت (یعنی گدھے پر چڑھنا) باقی ہے۔ اگر حضور نے یہ سنت بھی ادا کردی تو حضور سرور عالمؐ سے مساوات اور برابری ہوجائے گی اور یہ خلاف ادب ہے۔ بادشاہ نے یہ بات تسلیم کری اور گدھا واپس کردیا گیا۔ اور نعمت خاں نے تمام امراء سے ایک ماہ کی تنخواہ وصول کرلی۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.