لال قلعہ کے نیچے گولڈن ہارن
نہ گیا کوئی عدم کو، دل شاداں لے کر
یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لے کر
صدیاں اور قرن ابھی نہیں گزرے، بلکہ کچھ دنوں کی بات ہے کہ ترپولیہ سے گزر کر دیائے جمنا کی سنہری شاخ لال قلعہ کی قدم بوسی کرتی ہوئی زینت المساجد کے نیچے آتی تھی۔ اور زینت المساجد کے پاس جو فصیل میں کھڑکی لگی ہوئی ہے، اس کے پاس سے ہوتی ہوئی آگے جاکر دریا میں مل جاتی تھی۔ کھڑی کی سے بس کوئی سو قدم جاکر ایک کنواں تھا۔ اور کنوئیں سے اتر کی طرف پانی میں اینڈ پڑتی تھی۔ بڑے بڑے تیراک اور نہانے والے یہاں پیر نے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اینڈمیں پھنس کر استاد تو نکل ہی جاتے تھے اور اناڑی ڈوب کر مر جاتے تھے۔
مسجد گھاٹ سے لے کر ترپولیہ تک نہانے والوں کے جھومر کے جھومر اور جھلّڑ کے جھلّڑ دکھائی دیتے تھے اور لال قلعے کے جھروکوں کے نیچے جو آبِ رواں کی لطافت تھی، وہ کہتی تھی کہ میں کبھی حسن مغلیہ کے فوٹو کی پلیٹ رہ چکی ہوں۔ مجھ میں زیب النساء اور جہاں آرا اور عالم آرا اور ممتاز محل کے سراپا کا عکس پڑا ہے۔ اس شاخ زرین کے کنارے مچھلی پکڑنے والے شست اور کانٹا دریا میں ڈال کر اپنے محبوب کی تصور میں کنارے پر غرق رہتے تھے۔ کانٹوں میں کبھی بڑی سی پاتل آ پھنستی تھی، تو اس کا دریا سے نکلنا قیامت ہوتا تھا۔ کانٹا الگ خراب ہوتا تھا۔ ڈور جدا ستیاناس ہوتی تھی۔ فقیر فراق ؔبارہ دری میں بیٹھے بیٹھے اشراقی نظر سے یہ تماشے دیکھا کرتا تھا۔
ایک باری میری آنکھوں کے سامنے یہ سماں آیا کہ شمس برج کے نیچے پھنکیتی کے استاد مچھلی کے شکار میں مشغول ہیں۔ اور ان کے ادھر ادھر اور بھی کئی شکاری مچھلی کا شکار کھیل رہے ہیں۔ اور کانٹے دریا میں ڈالے چپ چاپ بیٹھے ہیں۔ شاہدرہ کی طرف سے سورج نکل رہا ہے اور شفق اور سورج کا عکس پانی میں عجب بہار دے رہا ہے۔ ناگہاں ایک شخص دراز قد، میلے کپڑے پہنے، اونچی سی دھوتی باندھے بغل میں ایک توشک کے اندر موٹی سی کوئی چیز لپیٹے دریا پر پہنچا۔ اس شخص کے پیچھے ایک لہنگے والی عورت تھی۔ عورت کی گود میں کوئی ساڑھے تین برس کابچہ تھا، اور کوئی پانچ برس کا بچہ اس کے ساتھ تھا، جس کی انگلی وہ پکڑے ہوئے تھی۔ شکار یوں نے ان دونوں زن و مرد اور دونوں بچوں کونگاہ غلط انداز سے دیکھا اور آنکھیں نیچی کر کے اپنے اپنے کانٹوں کو گھورنے لگے کہ اتنی سی غفلت میں مچھلی کانٹے کو لے کر چل تو نہیں دی۔
اس شخص نے اپنی لپٹی ہوئی توشک کو دریا میں زور سے پھینک دیا۔ توشک کے دریا میں گرتے ہی پانی کے اندر ایک دھماکا ہوا۔ اور اب سب شکاریوں نے چوکنا ہوکر دیکھا کہ اس شخص نے دریا میں کیا چیز پھینکی اور اس میں توشک دریا پر تِر کر بہنے لگی۔ اور اس کے نیچے سے کالے کتے کی لاش ابھر کر پانی پر آئی، اور پانی کا بہاؤ اسے لے چلا۔ کتے کی لاش کو دیکھ کر وہ اجنبی شخص آہ و فغاں کرنے لگا۔ مرد کو روتا دیکھ کر لہنگے والی عورت بھی بیان کر کے رونے لگی۔ ماں باپ کو روتا دیکھ کر دونوں بچے بھی بلک بلک کر رونے لگے۔
سننے والوں کو اس عورت کے بیان سے یہ معلوم ہوا کہ ان دونوں میاں بیوی نے اس کتے کو چھوٹا سا پالا تھا اور یہ دونوں اور ان کے بچے اس کتے سے بہت مانوس تھے اور کتا بھی ان سب پر اپنی جان دیتا تھا۔ قضا ءالٰہی سے یہ فوت ہوگیا۔ اور یہ لوگ اپنے یار وفادار کی لاش کو سپرد دریا کرنے آئے ہیں۔ کتے کو بے کسی اوربے بسی میں دریا کی تھپیڑیں کھاتا دیکھ کر ان کا جی بھر آیا ہے، اور عورت کتے سے مخاطب ہوکر کہہ رہی ہے، پیارے تیری جدائی شاق ہے۔ مگر کیا کریں۔ تو رہنے سے مجبور ہے اور ہم تجھے رکھنے سے معذور ہیں۔ ہم نے تجھے بڑے لاڈ سے پالا تھا۔ مگر یہ نہ معلوم تھا کہ تو بھی بیمار ہوکر مر جائےگا۔ اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
پھنکیتی کے استاد نے جب ان سوگواروں کے رونے کا بھید سمجھا تو یہ ماہی بے آب کی طرح بے قرار ہو گئے۔ کیونکہ حضرت کا دل ایک قتالہ عالم پر آیا ہوا تھا اور وہ کافر انہیں تڑپتا چھوڑ کر اغیار کے ساتھ آگرہ کو چل دی تھی۔ ان میاں بیوی کے تعلق کو دیکھ کر غیرت و حیا نے استاد کے کلیجہ میں چٹکی لی، اور درون سینہ سے ان کے کان میں آواز آئی کہ، اے انسان! تو نے عشق کے کرشمے کو دیکھا کہ یہ انسان اور حیوان سے سانگا جوڑ دیتا ہے اور آدمی پر آدمی مرنے لگے تو کچھ تعجب کاموقعہ نہیں ہے۔ اگر آدمی کی معرفت کے کان کھل جائیں تو اسے معلوم ہو کہ صدا آ رہی ہے کہ انسان و حیوان کیسے عشق سے کائنات کا کوئی ذرہ اور دریا کوئی قطرہ محبت و الفت سے خالی نہیں ہے اور جب آدمی عشق و الفت سے خالی ہو تو وہ خاک اور دھول سے بدتر ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |