لب و دنداں کا تمہارے جو ہے دھیاں آٹھ پہر
لب و دنداں کا تمہارے جو ہے دھیاں آٹھ پہر
نہیں لگتی مری تالو سے زباں آٹھ پہر
روش سیر وہ گلشن میں جو ٹک جا بیٹھے
بلبلیں گل کے اٹھایا کریں کاں آٹھ پہر
در سے اب نکلے وہ کیوں اس کو تو یہ ہے منظور
کہ نکلتی ہی کسی کی رہے جاں آٹھ پہر
کیوں کہ خوں ریز رہے تیز نہ وہ تیغ نگاہ
سنگ سرمہ سے چڑھا کرتی ہے ساں آٹھ پہر
کہتے ہیں سب ترے عاشق کو کہ شاید اے واے
ہے گرفتار مصیبت یہ جواں آٹھ پہر
دل کے لگنے سے یہ دیکھا کہ لگے رہتے ہم آہ
خود بخود مضطرب الحال نداں آٹھ پہر
جس کا ہے دھیان ہمیں اس کو بھی اپنا ہے خیال
وائے غفلت کہ یہ ہم کو ہے گماں آٹھ پہر
حسن خوبی بتاں کچھ نہ ادا ہو بخدا
کیجے گر لاکھ برس تک یہ بیاں آٹھ پہر
طرفہ اس جنس محبت کا بھی سودا دیکھا
سود میں جس کے رہے خوف زیاں آٹھ پہر
جب سے ہے ہم سے جدا آہ وہ رشک مہ و مہر
منہ لپیٹے ہیں بس اور ہے یہی دھیاں آٹھ پہر
رات کو رات سمجھتے ہیں نہ ہم دن کو دن
اپنی آنکھوں میں ہے تاریک جہاں آٹھ پہر
ان دنوں آپ میں تجھ کو کبھی پاتے ہی نہیں
کس کا رہتا ہے یہ جرأتؔ تجھے دھیاں آٹھ پہر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |