Jump to content

لذت سنگ (مضمون)

From Wikisource
لذت سنگ (1948)
by سعادت حسن منٹو
319915لذت سنگ1948سعادت حسن منٹو

لاہور کے ایک رسوائے عالم رسالے میں جو فحاشی و بے ہودگی کی اشاعت کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے، ایک افسانہ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’بو‘، اور اس کے مصنف ہیں مسٹر سعادت حسن منٹو۔ اس افسانے میں فوجی عیسائی لڑکیوں کا کیریکٹر اس درجہ گندا بتایا گیا ہے کہ کوئی شریف آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ افسانہ نگار نے اظہار مطلب کے لئے جو اسلوب اختیار کیا ہے اور جو الفاظ منتخب کئے ہیں، ان کے لئے تہذیب، شرافت کے دامن میں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی، لیکن حکومت اب تک خاموش ہے، حالانکہ یہی حکومت ہے جو ’لذت النساء‘ اور ’کوک شاستر‘ ایسی فنی؟ (یہ استفہامیہ میرا ہے) کتابوں کو بھی قابل مواخذہ سمجھتی ہے، لیکن ایسے افسانوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتی جو ادب جدید کے نام سے سفلی جذبات میں ہلچل ڈالنے کا موجب ہیں اور فحاشت نگار ادیبوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ وہ قانون کی گرفت سے بے نیاز ہو کر گندگی بکھیرتے رہتے ہیں۔ ( ہفتہ وار ’خیام‘ لاہور۔ )

پریس برانچ کے انچارج چودھری محمد حسین بہت نیک خیال کے بزرگ ہیں۔ اس قسم کے افسانے پڑھ کر ان کی روح یقیناً کانپ اٹھتی ہے۔ ان کے ہاتھ میں قانون ہے اور وہ اسے نہایت سختی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ کیا ان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ جس طرح قابل اعتراض مذہبی مضامین لکھنے والوں کے خلاف گورنمنٹ کی مشینری حرکت میں آئی، اسی طرح ان گندے افسانوں کو لکھنے والے سعادت حسن منٹو وغیرہ، بیچنے والے پبلشر جو رسالے کی فروخت سے ہزاروں روپیہ کماتے ہیں اور چھاپنے والے پریس کے مالک کو فوراً گرفتار کر لیتے اور ان میں سے ہر ایک کو تین تین سال کے لئے جیلوں میں بند کرا دیتے۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی بھی عدالت ان افسانوں کو قانون کی زد سے نہیں بچنے دے گی۔ یہ صاف طور سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بداخلاقی پھیلاتے ہیں اور عوام کا مذاق بگاڑتے ہیں۔ (روزنامہ پربھات۔ لاہور)

ادب لطیف، اس نام کا ایک رسالہ لاہور سے شائع ہوتا ہے۔ یہ کہنے کو تو ایک ادبی ماہنامہ ہے لیکن اگر اسے ادب کثیف کہیئے تو بجا ہے۔ اس کا سالانہ نمبر اس وقت ہمارے پیش نظر ہے، جس میں ایک لچر اور فحش افسانہ از قلم فحش نگار سعادت حسن منٹو شائع ہوا ہے جس کے خلاف ہم نہایت پرزور احتجاج کرتے ہیں، نہ فقط اس کے کوک شاسترانہ خیالات کی وجہ سے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ گورنمنٹ عالیہ کی ومینزاگزالیری کور (Wac) کی مساعی درباب جنگ کی راہ میں روڑا اٹکانے والا اور اس کی بدنامی کا موجب ہے حتیٰ کہ اس محکمہ کو بیہودہ شخص قحبہ خانہ کا نام دیتا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر گورنمنٹ کی مشینری فوراً حرکت میں آ جاتی ہے، لیکن اس خلاف تہذیب مضمون پر اس کی اب تک نظر نہیں پڑی۔ کیا سپرنٹنڈنٹ پریس برانچ اس بداخلاق اور بے ادب ’ادیب‘ اور رسالہ مذکور کے خلاف جلد کوئی کارروائی نہ کریں گے، د یکھنا چاہیئے! (اخوت، لاہور)

ایک مقامی ماہنامہ نے سعادت حسن منٹو کا ایک فحش افسانہ ’بو‘ شائع کیا تھا۔ خیام میں اس اخلاق سوز حرکت کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی، جو حکومت پنجاب کے کانوں تک پہنچے بغیر نہ رہ سکی، چنانچہ معلوم ہوا کہ جس پرچے میں ’بو‘ شائع ہوا تھا، وہ ضبط کر لیا گیا ہے۔ یہ ضبطی ۳۸/۲۹۲ دفعہ کے ماتحت عمل میں آئی۔ ہم اس فیصلے پر حکومت پنجاب کو مستحق تبریک سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کی فحاشی کو مستقل طور پر روکنے کے لئے کوئی موثر قدم اٹھائے گی۔ (ہفتہ وار خیام ۸ اپریل ۱۹۴۴ء)

۳۱؍ ملک بلڈنگ، میو روڈ، لاہور

بھائی جان، سلام شوق!
برادرم آغا خلش صاحب کا گرامی نامہ پرسوں ملا تھا۔ آپ کی علا لت کا علم ہوا، اللہ کرے آپ اب تک اچھے ہوں۔ جب آپ کو اپنی صحت کا اندازہ ہے تو اتنا زیادہ کام کیوں کرتے ہیں کہ دنوں صاحب فراش رہتے ہیں۔ مجھے لوٹتی ڈاک میں اپنی صحت کی حالت سے مطلع کیجئے اور للہ اتنی محنت نہ کیجئے کہ آپ انجکشن کے کانٹوں میں گھرے رہ جائیں۔ ابھی برسوں تک آپ کی ضرورت ہے۔ لیجئے، خیام، عالمگیر، آئینہ (بمبئی) اور دیگر مہربا نوں کے دم سے ادب لطیف کا سالنامہ زیر دفعہ ۲۹۲ تعزیرات ہند اور ۳۸ ڈیفنس آف انڈیا رولز ۲۹/ مارچ کی شام کو ضبط ہو گیا۔ پولیس نے چھاپہ مارا۔ سالنامے کے باقی ماندہ نمبر لے گئی، ابھی پروپرائٹر اور ایڈیٹروں کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، لیکن افواہ ہے کہ ہم بہت جلد گرفتار کر لئے جائیں گے۔ یہ ضبطی آپ کے مضمون اور افسانے کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔ (احمد ندیم قاسمی، ایڈیٹر ادب لطیف)

مضمون جس کا ذکر محولہ صدر خط میں ہے، ایک تقریر ہے جو میں نے جو گیشوری کالج بمبئی میں طالب علموں کو پڑھ کے سنائی تھی۔ اس سے پہلے چند اصحاب ادب جدید کے خلاف اس کالج میں تقریریں کر چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کالج کی مجلس ادب کی دعوت قبول کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریر بعد میں ادب جدید کے عنوان سے ادب لطیف کے زیر عتاب سالنامہ ۱۹۴۴ء میں میرے افسانے ’بو‘ کے ساتھ شائع ہوئی۔ میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں،

’’میرے مضمون کا عنوان ادب جدید ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میں اس کا مطلب ہی نہیں سمجھتا۔ لیکن یہ زمانہ ہی کچھ ایسا ہے کہ لوگ اسی چیز کے متعلق باتیں کرتے ہیں، جن کا مطلب ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ پچھلے دنوں گاندھی جی نے آغا خان کے محل میں مرن برت رکھا۔ جب لوگوں کی سمجھ میں نہ آیا وہ کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں تو ایک نارنگی پیدا کر دی گئی۔ یہ نارنگی بھی کچھ دنوں کے بعد ناقابل فہم ہو گئی۔ بعض آدمیوں نے کہا کہ نارنگی نہیں تھی، موسمی تھی۔ بعض نے کہا نہیں موسمبی، نارنگی ہر گز نہیں تھی، مالٹا تھا۔۔۔ بات بڑھتی گئی، چنانچہ اس پھل کی ساری ذاتیں گنوا دی گئیں۔ نارنگی، سنترہ، موسمبی، مالٹا، چکوترہ، سویٹ لائم، کھٹا لیموں، میٹھا لیموں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پھر ڈاکٹروں نے ان میں سے ہر ایک کی وٹامنز گنوائیں۔ غذائیت کو کیلوریز میں تقسیم کیا گیا۔۔۔ ایک برس میں پچھتر برس کے بڈھے کو کتنی کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس پر بحث کی گئی اور صاحب! گاندھی جی کی یہ نارنگی یا موسمبی جو کچھ بھی تھی، سعادت حسن منٹو بن گئی۔۔۔

یہ میرا نام ہے لیکن بعض لوگ ادب جدید المعروف نئے ادب، یعنی ترقی پسند ادب کو سعادت حسن منٹو بھی کہتے ہیں اور جنہیں صنف کرخت پسند نہیں، وہ اسے عصمت چغتائی بھی کہہ لیتے ہیں۔ جس طرح میں، یعنی سعادت حسن منٹو اپنے آپ کو نہیں سمجھتا، اسی طرح ادب جدید المعروف نیا ادب یعنی ترقی پسند لٹریچر بھی میری فہم سے بالاتر ہے اور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ان لوگوں کی سمجھ سے بھی اونچا ہے جو اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند مضمونوں میں اس ادب کو جس کے کئی نام ہیں اور زیادہ نام دینے کے لئے فحش نگاری اور مزدور پرستی سے، منسوب کیا گیا ہے۔ میں چیزوں کے نام رکھنے کو برا نہیں سمجھتا۔ میرا اپنا نام اگر نہ ہوتا تو وہ گالیاں کیسے دی جاتیں جو اب تک میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے نقادوں سے وصول کر چکا ہوں۔۔۔ نام ہو تو گالیاں اور شاباشیاں دینے اور لینے میں بہت سہولت پیدا ہو جاتی ہے، لیکن اگر ایک ہی چیز کے بہت سے نام ہوں تو الجھاؤ پیدا ہونا ضروری ہے۔

سب سے بڑا الجھاؤ اس ترقی پسند ادب کے بارے میں پیدا ہوتا ہے، حالانکہ پیدا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ ادب یا تو ادب ہے ورنہ ادب نہیں ہے۔ آدمی یا تو آدمی ہے ورنہ آدمی نہیں ہے، گدھا ہے۔ مکان ہے، میز ہے، یا اور کوئی چیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سعادت حسن منٹو ترقی پسند انسان ہے۔ یہ کیا بے ہودگی ہے! سعادت حسن منٹو انسان ہے اور ہر انسان کو ترقی پسند ہونا چاہیئے۔ ترقی پسند کہہ کر لوگ میری صفت بیان نہیں کرتے بلکہ اپنی برائی کا ثبوت دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود ترقی پسند نہیں، یعنی وہ ترقی نہیں چاہتے۔ میں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کا خواہش مند رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب ترقی کریں۔ آج آپ طالب علم ہیں، ترقی کرتے کرتے آپ بھی اپنے آئیڈیل تک پہنچ جائیں۔

ہر آدمی ترقی پسند ہے۔ وہ لوگ جنہیں تخریبی یا رجعت پسند کہا جاتا ہے، خود کو ترقی پسند ہی سمجھتے ہیں اور پھر زمانے میں قریب قریب ہر آدمی گزری ہوئی نسل کے مقابلے میں اپنے کو زیادہ ذہین، طباع اور ترقی یافتہ انسان ہی سمجھتا ہے۔ یہی حال ادب کا ہے۔ شرر کے ناول اور راشد الخیری کے قصے آج کل کے اکثر مصنفین کو بالکل بے جان معلوم ہوتے ہیں۔ پڑھنے والوں کی بھی یہی کیفیت ہے۔ مارکیٹ میں چلے جائیے۔۔۔ آج سے دس بیس برس پہلے کے لکھنے والوں کی کتابیں اسٹالوں پر بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کی کتابیں، ایم اسلم، تیرتھ رام فیروز پوری، سید امتیاز علی تاج اور عابد علی عابد کے مقابلے میں زیادہ پڑھی جاتی ہیں، اس لئے کہ کرشن چندر اور اس کے ہم عصر نوجوانوں نے زندگی کے نئے تجربے بیان کئے۔

آج سے بیس پچیس برس پہلے ملک کی سیاسی اور مجلسی حالت بالکل مختلف تھی۔ اسی طرح آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پچاس ساٹھ برس اور پہلے کیسی ہوگی، اور اگر مغلئی حکومت کا دور دورہ ہوتا تو بہت ممکن ہے میرے گھر میں ایک حرم سرائے ہوتی۔ حرم سرائے نہ ہوتی تو کم از کم ایک بیوی گھر میں ہوتی اور دو تین طوائفیں میری ملازمت میں ہوتیں، مجھے بٹیریں لڑانے کا شوق ہوتا۔ یہ مضمون پڑھنے کے بجائے میں پرنسپل صاحب بالقابہ کی شان میں ایک قصیدہ سناتا جو خوش ہو کر یا تو میرا منہ موتیوں سے بھر دیتے یا جو گیشوری کالج مجھے بخش دیتے تاکہ میں اپنا طویلہ بنا سکوں، مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں، حالت بہت مختلف ہے۔ مجھے یہاں سے پیدل اسٹیشن جانا پڑے گا اور فلمستان میں اپنے آقاؤں کو جواب دینا پڑے گا کہ میں اتنی دیر ڈاکٹر کے پاس کیا کرتا رہا۔۔۔ ان سے جھوٹ بول کر آیا ہوں کہ ڈاکٹر سے ٹیکہ لگوانے جا رہا ہوں۔

ہاں، تو میں عرض کر رہا ہوں کہ حالات بہت مختلف ہیں اور یہ اختلاف ہی ادب میں مختلف رنگ پیدا کرتا ہے۔ پہلے فارغ البالی تھی، لوگ آرام پسند اور عیش پرست تھے۔ اس زمانے کے ادب میں آپ کو بہت سی دماغی عیاشیاں نظر آ سکتی ہیں۔ وہ غنودگی بھی آپ محسوس کرسکتے ہیں جو اس زمانہ کے ادیبوں پر طاری تھی۔ اس زمانہ میں شاعر اپنے اصیل مرغ کی جوان مرگی پر زوردار نوحہ لکھتا تھا اور بہت بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا تھا۔ آج کا شاعر اپنی جوان مرگی پر زور دار نوحہ لکھتا ہے۔ اس عہد کا قصہ نویس جنوں اور پریوں کی داستانیں لکھ کر نام پیدا کرتا تھا۔ آج کا افسانہ نویس ان مردوں اور عورتوں کی کہانیاں لکھتا ہے جو جنوں اور پریوں سے کہیں زیادہ دلچسپ ہیں۔ اس دور کا ادیب مطمئن انسان تھا۔ آج کا ادیب ایک غیر مطمئن انسان ہے۔ اپنے ماحول، اپنے نظام، اپنی معاشرت، اپنے ادب، حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی۔

اس کی اس بے اطمینانی کو لوگوں نے غلط نام دے رکھے ہیں۔ کوئی اسے ترقی پسند کہتا ہے، کوئی فحش نگار اور کوئی مزدور پرست۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہبوط آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے اور کیوں نہ رہے، مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہیئے۔ جب کبوتر، کبوتریوں کو دیکھ کر گٹکتے ہیں تو مرد، عورتوں کو دیکھ کر ایک غزل یا افسانہ کیوں نہ لکھیں، عورتیں کبوتریوں سے کہیں زیادہ دلچسپ خوبصورت اور فکر انگیز ہیں۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے شاعری میں عورت کو ایک خوبصورت لڑکا بنا دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے کے شاعروں نے اس میں کوئی مصلحت دیکھی ہوگی، مگر آج کے شاعر اس مصلحت کے خلاف ہیں۔ وہ عورت کے چہرے پر سبزے یا خط کے آغاز کو بہت ہی مکروہ اور خلاف فطرتِ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اس کو اس کی اصلی شکل ہی میں دیکھیں۔۔۔ خدا لگتی کہیئے، کیا آپ اپنی محبوب کے گالوں پر داڑھی پسند کریں گے؟

میں عرض کر رہا ہوں کہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔۔۔ آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے اس کے خلاف اخباروں میں مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہر اگلنا بالکل بیکار ہے۔ وہ لوگ جو ادبِ جدید کا، ترقی پسند ادب کا، فحش ادب کا یا جو کچھ بھی یہ ہے، خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کر دیا جائے جو اس ادب کے محرک ہیں۔ محمود آباد کے راجہ صاحب کا، حیدرآباد کے شاعر ماہر القادری صاحب کا یا بمبئی کے دوا فروش حکیم مرزا حیدر بیگ صاحب کا اس لٹریچر کے خلاف ریزولیوشن پاس کرنا بالکل بیکار ہے۔ جب تک عورتوں اور مردوں کے جذبات کے درمیان ایک موٹی دیوار حائل رہے گی، عصمت چغتائی اس کے چونے کو اپنے تیز ناخنوں سے کریدتی رہے گی، جب تک کشمیر کے حسین دیہاتوں میں شہروں کی گندگی پھیلی رہے گی، غریب کرشن چندر ہولے ہولے روتا رہے گا۔ جب تک انسانوں میں اور خاص طور پر سعادت حسن منٹو میں کمزوریاں موجود ہیں، وہ خوردبین سے دیکھ دیکھ کر باہر نکالتا اور دوسروں کو دکھاتا رہے گا۔۔۔

راجہ صاحب محمود آباد اور ان کے ہم خیال کہتے ہیں۔ یہ سراسر بیہودگی ہے۔۔۔ تم جو کچھ لکھتے ہو، خرافات ہے۔ میں کہتا ہوں، بالکل درست ہے۔ اس لئے کہ میں بیہودگیوں اور خرافات ہی کے متعلق لکھتا ہوں۔ راجہ صاحب محمود آباد ایک کانفرنس کے صدر بن جائیں یا حکیم حیدر بیگ صاحب کھانسی دور کرنے کا مجرب شربت ایجاد کریں، مجھے ان کی صدارت اور ان کے شربت سے کوئی دلچسپی نہیں، البتہ جب میں ٹرین میں بیٹھا اپنا خریدا ہوا قیمتی پن نکالتا ہوں، صرف اس غرض سے کہ لوگ دیکھیں اور مرعوب ہوں تو مجھے اپنا سفلہ پن بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔

میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لئے ذرہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی، لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خودکشی کی دھمکی دے کر سینما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر اہمیت نہیں دیتا، مگر وہ لڑکا میری توجہ کو اپنی طر ف ضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سیکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں، لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ۔۔۔ اس بظاہر کامیاب عاشق کی رنگین باتوں میں جو ٹریجڈی سسکیاں بھرتی ہوگی، اس کو میں اپنے دل کے کانوں سے سنوں گا اور دوسروں کو سناؤں گا۔

چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔۔۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔۔۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست پسندی کو نظر انداز کر جاتا ہوں۔

اعتراض کیا جاتا ہے کہ نئے لکھنے والوں نے عورت اور مرد کے جنسی تعلقات ہی کو اپنا موضوع بنا لیا ہے۔ میں سب کی طرف سے جواب نہیں دوں گا، اپنے متعلق اتنا کہوں گا کہ یہ موضوع مجھے پسند ہے۔۔۔ کیوں ہے۔۔۔ بس ہے، سمجھ لیجئے کہ مجھ میں (Pervession) ہے، اور اگر آپ عقل مند ہیں، چیزوں کے عواقب و عواطف اچھی طرح جانچ سکتے ہیں تو سمجھ لیں گے کہ یہ بیماری مجھے کیوں لگی ہے۔ زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے، اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔۔۔

میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔۔۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے۔۔۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔

جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا تو گھر والے سب بیزار تھے۔ باہر کے لوگوں کو بھی میرے ساتھ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، چنانچہ وہ کہا کرتے تھے، ’’بھئی کوئی نوکری تلاش کرو۔ کب تک بیکار پڑے افسانے لکھتے رہو گے۔۔۔‘‘ آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری بیکاری کا دوسرا نام تھا، آج اسے ادبِ جدید کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کر لی ہے۔۔۔ وہ وقت بھی آ جائے گا جب اس جدید ادب کا صحیح مطلب واضح ہو جائے گا اور حکیم حیدر بیگ صاحب دہلوی کو اپنے شفاخانے سے اٹھ کر نئے لکھنے والوں کے روگ کی تشخیص نہیں کرنا پڑے گی۔

جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، ادب جدید پر ایک نئے زاویے سے حملہ کیا جا رہا ہے۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ جب ساری دنیا جنگ کے شعلوں میں لپٹی ہے، ہر روز ہزاروں انسانوں کا خون مٹی میں مل رہا ہے، فنا بادۂ ہر جام بنی ہے، دوسری اجناس کی طرح انسانوں کے گوشت پوست کی دکانیں بھی کھلی ہیں۔ یہ نئے لکھنے والے کیوں خاموش ہیں۔۔۔ کیا ان کے قلم صرف جنسیات کی روشنائی ہی میں ڈوبتے ہیں؟ دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے۔ ہر لحظہ، ہر گھڑی ایک نئے طوفان کا پیغام لا رہی ہے، مگر ان کے دل و دماغ پر ایسا جمود طاری ہے کہ دور ہی نہیں ہوتا۔

میں پھر دوسروں کی طرف سے جواب نہیں دوں گا۔۔۔ اپنے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کا نقشہ واقعی بدل رہا ہے، لیکن اگر میں نے اس کے متعلق کچھ لکھ دیا تو میرا حلیہ بھی بدل جائے گا۔ ڈرپوک آدمی ہوں، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ زندگی جو بسر کر رہا ہوں، جیل سے کم تکلیف دہ نہیں۔ اگر اس جیل کے اندر ایک اور جیل پیدا ہو جائے اور مجھے اس میں ٹھوس دیا جائے تو چٹکیوں میں دم گھٹ جائے۔۔۔ زندگی سے مجھے پیار ہے۔ حرکت کا دلدادہ ہوں، چلتے پھرتے، سینے میں گولی کھا سکتا ہوں لیکن جیل میں کھٹمل کی موت نہیں مرنا چاہتا۔ یہاں اس پلیٹ فارم پر یہ مضمون سناتے سناتے آپ سب سے مار کھا لوں گا اور اف تک نہیں کروں گا، لیکن ہندو مسلم فساد میں اگر کوئی میرا سر پھوڑ دے تو میرے خون کی ہر بوند روتی رہے گی۔ میں آرٹسٹ ہوں اور اوچھے زخم اور بھدے گھاؤ مجھے پسند نہیں۔۔۔ جنگ کے بارے میں کچھ لکھوں اور دل میں پستول دیکھنے اور اس کو چھونے کی حسرت دبائے کسی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں مر جاؤں۔۔۔ ایسی موت سے تو یہی بہتر ہے کہ لکھنا وکھنا چھوڑ کر ڈیری فارم کھول لوں اور پانی ملا دودھ بیچنا شروع کر دوں۔

میں اس جنگ کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا۔ گولے اور تار پیڈو ایک طرف رہے، میں نے تو آج تک ہوائی بندوق بھی نہیں چلائی۔۔۔ بچپن کی بات ہے، ہمارے پڑوس میں ایک تھانے دار رہتے تھے۔ ان کے پاس پستول تھا۔ پیٹی اتار کر جب وہ پلنگ پر رکھتے تو سب بچوں سے کہہ دیا جاتا، دیکھو اس کمرے میں مت جانا۔۔۔ وہاں پستول پڑا ہے۔۔۔ کبھی کبھی ہم ڈرتے ڈرتے اس کمرے میں چلے جاتے۔ دور کھڑے رہ کر اس خطرناک آلے کی طرف دیکھتے تو دل دھک دھک کرنے لگتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ پڑے پڑے وہ پستول دغ جائے گا۔ اب بتایئے، میں اور میرے دوست ٹینکوں کے بارے میں کیا لکھیں گے!

مجھے چست وردی پہننے کا شوق نہیں ہے۔ پیتل اور تانبے کے تمغوں اور کپڑے کے رنگین بلوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہوٹلوں میں ڈانس کر کے، کلبوں میں شراب پی کر اور ٹیکسیوں میں چونا کتھا لگی لڑکیوں کے ساتھ گھوم کر میں دارالیفرٹ کی مدد کرنا نہیں چاہتا۔ اس سے کہیں زیادہ دلچسپ مشاغل مجھے میسر ہیں۔ مثال کے طور پر یہ مشغلہ کیا برا ہے کہ میں ہر روز بمبئی سنٹرل سے گورے گاؤں اور گورے گاؤں سے بمبئی سنٹرل تک برقی ٹرین میں سیکڑوں وردی پوش فوجیوں کو دیکھتا ہوں جو فتح و نصرت کو اور زیادہ قریب لانے کے لئے شراب کے نشے میں مدہوش یا تو ٹانگیں پسارے سو رہے ہوتے ہیں یا نہایت ہی بدنما عورتوں سے، میری موجودگی سے غافل، نہایت ہی واہیات قسم کا رومانس لڑانے میں مصروف ہوتے ہیں۔

میں اس جنگ کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا، لیکن جب میرے ہاتھ میں پستول ہوگا اور دل میں یہ دھڑکا نہیں رہے گا کہ یہ خود بخود چل پڑے گا تو میں اسے لہراتا ہوا باہر نکل جاؤں گا اور اپنے اصلی دشمن کو پہچان کر یا تو ساری گولیاں اس کے سینے میں خالی کر دوں گا۔۔۔ یا خود چھلنی ہوجاؤں گا۔۔۔ اس موت پر جب میرا کوئی نقاد یہ کہے گا کہ پاگل تھا تو میری روح ان لفظوں ہی کو سب سے بڑا تمغہ سمجھ کر اٹھا لے گی اور اپنے سینے پر آویزاں کر لے گی۔‘‘

اس تقریر یا مضمون پر حکومت پنجاب نے زیر دفعہ ۳۰ ڈیفنس آف انڈیا رولز مقدمہ چلایا۔ الزام یہ ہے کہ اس میں حضور ملک معظم کی ’فورسز‘ کے متعلق ایسی غلط باتیں موجود ہیں جن سے ان کو ضعف پہنچ سکتا ہے۔ ’بو‘ پر جو اس کتاب کا پہلا افسانہ ہے صرف فحاشی کا الزام ہے۔

مقدمہ جیساکہ ظاہر ہے لاہور میں چودھری برکت علی ولد چودھری محمد نتھو ساکن لاہور، مالک ادب لطیف، چودھری نذیر احمد ولد چودھری غلام حسین قوم اراعین ساکن لاہور (اڈیٹر) پیرزادہ احمد ندیم قاسمی ساکن لاہور (اڈیٹر) سعادت حسن منٹو ولد غلام حسن منٹو ساکن بمبئی کے خلاف مسٹر بنواری لال کی عدالت میں پیش ہوا۔ مجھے بمبئی سے بہت ضروری کام چھوڑ کر حاضر ہونا پڑا۔ لاہور پہنچا تو خیال تھا کہ مجھے گرفتار کیا جائے گا کیونکہ میرے وارنٹ جاری ہو چکے تھے، مگر سب انسپکٹر صاحب نے جن سے اتفاقیہ مکتبہ اردو میں ملاقات ہو گئی، مجھ سے کہا کہ میں صبح دوسرے ملزمین کے ساتھ عدالت میں حاضر ہو جاؤں۔ گورنمنٹ کالج کے بالکل سامنے گردوغبار میں اٹی ہوئی اینٹوں کی دو منزلہ عمارت ہے۔ جسے ضلع کہتے ہیں۔ شاید جگت کے طور پر۔۔۔ اس عمارت کے ایک کمرے میں ہم سب ملزم پیش ہوئے۔

پہلے میری ضمانت ہوئی۔ اس کے بعد کارروائی شروع ہوئی۔ میں اس سے پہلے اس عدالت میں اپنے افسانے ’کالی شلوار‘ کے مقدمے کے سلسلے میں پیش ہو چکا تھا۔ مجسٹریٹ صاحب چنانچہ میری طرف دیکھتے ہی مسکرا دیے۔ استغاثے کی گواہیاں ہوتی رہیں۔ میں خاموش سنتا رہا، اس لئے کہ سب کی سب لایعنی، بے ہودہ اور منطق و استدلال سے عاری تھیں۔ اسی روز میں نے اپنے وکیل مسٹر ہیرا لال سیبل کی معرفت عدالت سے درخواست کی کہ میری حاضری آئندہ پیشیوں میں معاف کر دی جائے۔ عدالت نے یہ درخواست منظور کر لی۔

اتفاق سے ان دنوں میرے بڑے بھائی الحاج محمد حسن منٹو بار ایٹ لاء جزائر فجی سے لاہور آئے تھے۔ میں نے ان کو اپنا افسانہ ’بو‘ اور مضمون ’ادب جدید‘ پڑھنے کے لئے دیا اور پوچھا کہ انجام کیا ہوگا۔ دونوں چیزیں بغور پڑھنے کے بعد انہوں نے جواب دیا، ’’میرا خیال ہے کہ استغاثے کی گواہیاں سننے کے بعد ہی مجسٹریٹ مقدمہ خارج کر دے گا۔‘‘ لیکن ایسا نہ ہوا۔ میں بمبئی چلا آیا تھا۔ وہاں لاہور میں فردِ جرم عائد ہو گیا اور دونوں چودھریوں اور احمد ندیم قاسمی کو صفائی کے گواہ پیش کرنے میں کافی دوڑ دھوپ کرنی پڑی۔ اسی دوران میں مسٹر بنواری لال تبدیل ہو گئے اور ان کی جگہ چودھری مہدی علی خان متعین ہوئے۔ چونکہ یہ مقدے کی تفصیل سے بخوبی واقف نہیں تھے، اس لئے فیصلہ مرتب کرنے میں کافی دیر ہو گئی۔

۲/مئی ۱۹۴۵ء کو چودھری مہدی علی خان نے بالآخر فیصلہ سنا دیا۔ صرف اتنا کہا کہ سعادت حسن منٹو بری ہے، اس لیئے کہ مسٹر بنواری لال اسے پہلے ہی بری کر چکے تھے۔ میں نے سوچا اگر ایسا ہی تھا تو مجھے بمبئی سے لاہور آنے کی زحمت کیوں دی گئی۔۔۔ احمد ندیم قاسمی بھی بری کر دیے گئے، لیکن دونوں چودھریوں کو ساٹھ روپے فی کس کے حساب سے جرمانہ ہوا۔ عدم ادائیگی کی صورت میں ایک ایک ماہ قید بامشقت۔ مشقت کا نام سنتے ہی چودھریوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جرمانہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد چودھری مہدی علی خان کے فیصلے کے خلاف مسٹر ایم۔ آر۔ بھاٹیہ ایڈیشنل جج کی عدالت میں اپیل کی گئی۔ فیصلہ ۲۴/ نومبر ۱۹۴۵ء کو ہوا، جس کا ترجمہ یہ ہے،

زیر نظر مقدمہ دفعہ ۲۹۲ تعزیرات ہند کے تحت ہے جس میں برکت علی اور نذیر احمد کو ساٹھ روپے جرمانہ، اور عدم ادائیگی کی صورت میں ایک ماہ قید بامشقت کی سزا کے خلاف مجھ سے اپیل کی گئی ہے۔ ماتحت عدالت فاضلہ نے اپنے فیصلے میں یہ ریمارک کیا ہے کہ مضمون ’بو‘ کا مصنف سوسائٹی کی نظروں میں سخت ترین سزا کا مستحق تھا اور یہ کہ وہی صحیح آدمی تھا جسے قانونی گرفت میں لینا چاہیئے تھا، مگر پیش رو فاضل جج (مسٹر بنواری لال) نے اسے بری کر دیا۔

موجودہ ملزموں میں سے ایک پبلشر ہے اور دوسرا ایڈیٹر جس نے مضمون چھاپا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ایسے اشخاص ملزمین کی صفائی میں پیش ہوئے جو اردو زبان کے عالم ہونے کی حیثیت میں بہت مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر خان بہادر عبد الرحمن چغتائی، مسٹر کے ایل کپور، پروفیسر ڈی اے وی کالج، راجندر سنگھ (بیدی) اور ڈاکٹر آئی ایل لطیف، پروفیسر ایف سی کالج جو بطور گواہان صفائی پیش ہوئے۔ ان سب کی رائے ہے کہ مضمون ’بو‘ میں ایسی کوئی چیز نہیں جو شہوانی حسیات پیدا کرے، بلکہ ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مضمون ترقی پسند ہے اور اردو ادب کے ماڈرن رجحان سے تعلق رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ استغاثہ کے گواہ نمبر چار بشیر، نے بھی دوران جرح میں تسلیم کیا کہ مضمون انسان کے اخلاق پر برا اثر نہیں ڈالتا۔

میری نظر میں مضمون ایک عشقیہ کہانی ہے۔ ایک لڑکے اور لڑکی کی جس میں ایسی بات کا دلچسپ ذکر ہے جو عموماً ہر روز نوجوان آدمیوں میں نہیں ہوتی۔ ماتحت عدالت فاضلہ نے ہندوستانی نوجوانوں کی تعیش پسند زندگی کا ذکر کرتے ہوئے افسوس کیا ہے اور اس پر ماتم کیا ہے کہ ملک میں ہندوستانیوں کا پرانا کیریکٹر نابود ہو رہا ہے۔ (ماتحت عدالت کے فاضل جج) نے وہ خوبیاں یاد کرائی ہیں جن کے لئے ہم ہندوستانی کبھی مشہور تھے، اور نصیحت کی ہے کہ نئے فیشنوں کو ختم کر دینا چاہیئے۔

معلوم ہوتا ہے کہ ماتحت عدالت فاضلہ کے خیالات ترقی پسند نہیں ہیں۔ ہمیں زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ حسین چیز ایک دائمی مسرت ہے۔ آرٹ جہاں کہیں بھی ملے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے۔۔۔ آرٹ خواہ وہ تصویر کی صورت میں ہو یا مجسمے کی شکل میں، سوسائٹی کے لئے قطعی طور پر ایک پیش کش ہے، چاہے اس کا موضوع غیر معقول ہی کیوں نہ ہو۔ یہی کلیہ تحریروں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ جب ملک کے مشہور و معروف آرٹسٹوں اور ادیبوں نے ملزمین کے حق میں کہا ہے۔ سارا فیصلہ یہیں ہو جاتا ہے۔ زیربحث مضمون ایسا مضمون نہیں کہ جس پر کسی قانونی عدالت میں نکتہ چینی کی جائے۔ میں اپیل کرنے والوں کو بری کرتا ہوں۔

مجھے چونکہ ’شہادت‘ کا رتبہ حاصل نہیں کرنا ہے، اس لئے میں ان تکلیفوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو مجھے لاہور آنے جانے میں اٹھانی پڑیں۔ ایک لعنت سر سے دور ہو گئی، یہی کافی تھی۔ مجھے ان اخباروں کے متعلق بھی کچھ نہیں کہنا ہے جن میں ہفتوں بلکہ مہینوں حکومت اور رعایا کو اخلاقیات کے سبق دیے جاتے رہے۔ افسوس صرف اتنا ہے کہ یہ پرچے ایسے لوگوں کی ملکیت ہیں، جو عضو خاص کی لاغری اور کجی دور کرنے کے اشتہار، خدا اور رسول کی قسمیں کھا کھا کر شائع کرتے ہیں، لیکن اپنے ایڈیٹروں کی ٹیڑھی بنگی ٹانگوں اور ان کی جھکی ہوئی کمروں کا مطلق خیال نہیں کرتے۔۔۔ مجھے ان قلم سے مزدوری کرنے والوں سے دلی ہمدردی ہے۔ ان میں سے اکثر شریف آدمی ہیں جنہیں ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں، لیکن چونکہ پرچہ چھپنا ہی چاہیئے اور اس میں شروع سے لے کر آخر تک کچھ لکھا بھی ہونا چاہیئے، اس لئے یہ مجبور انسان، سیاست، سائنس اور ادب پر جو بھی ان کے ناتربیت یافتہ دماغوں میں آئے، کاغذ پر گھسیٹ دیتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ صحافت جیسے معزز پیشے پر ایسے لوگوں کا اجارہ ہے جن میں سے اکثر طلاء فروش ہیں۔

پنجاب کی پریس برانچ کے متعلق میں ’ایں دفتر بے معنی‘ نہیں کہہ سکتا، اس لئے کہ یہ دفتر اپنے معنی وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق نکالتا رہتا ہے۔ چند برسوں سے اس کے معنی یہ ہیں کہ علامہ اقبال مرحوم کے بعد خدائے عزوجل نے ادب کے تمام دروازوں میں تالے ڈال کر ساری چابیاں ایک نیک بندے کے حوالے کر دی ہیں۔۔۔ کاش علامہ مرحوم زندہ ہوتے! پولیس کی عدالتیں تو خیر پولیس کی عدالتیں ہیں۔۔۔ اندھی روح اور گنجے فرشتے! اس اندھی روح، گنجے فرشتوں اور پنجاب کے طلاء فروش اخبار والوں اور رسالوں کے مالکوں اور ان کے مریض ایڈیٹروں کی بدولت ایک بار پھر مجھے لاہور کی عدالت میں حاضر ہونا پڑا جسے جگت کے طور پر ضلع کہتے ہیں۔

اب کی مقدمہ ساقی بک ڈپو دہلی کی شائع کردہ کتاب ’دھواں‘ پر تھا۔ الزام وہی فحاشی کا تھا۔ دو افسانے زیر عتاب تھے۔ کتاب کا پہلا افسانہ ’دھواں‘ اور ’کالی شلوار۔‘ کالی شلوار پر عرصہ ہوا، قانونی پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا اور سیشن کورٹ میں یہ فحاشی سے مبرا قرار دی جا چکی تھی۔ معلوم نہیں ایک بار پھر اس بے ضرر افسانے پر تعزیرات ہند کی دفعہ ۲۹۵ کیوں آزمائی گئی۔ اس دفعہ معاملہ کچھ زیادہ سنگین معلوم ہوا کیوں کہ میرے اور مسٹر شاہد احمد دہلوی (مالک ساقی بک ڈپو) کے علاوہ کاتب بھی گرفتار کر لیا گیا جس نے ’دھواں‘ لکھنے کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ وہ کتب فروش بھی گرفتار کئے گئے جن کے پاس یہ ملعون کتاب موجود تھی۔ پریس جس میں چھپی تھی، اس کا مالک بھی دھر لیا گیا۔

میں سلیقے کا بہت قائل ہوں۔ ناگوار سے ناگوار چیز بھی اگر سلیقے کے ساتھ کی جائے تو مجھے ناگوار معلوم نہیں ہوتی۔ لاہور سی آئی ڈی کے ایک سب انسپکٹر نے جس کا نام شاید رام سروپ تھا، مجھے ۵/ دسمبر۱۹۴۴ء کو گورے گاؤں سے ’ملاڈ‘ پولیس اسٹیشن بلوایا اور بغیر وارنٹ دکھائے گرفتار کر لیا۔ میں نے وارنٹ کے متعلق استفسار کیا تو رام سروپ نے کہا، ’’پرائیویٹ کاغذات میں تمہیں نہیں دکھا سکتا۔‘‘ یہ حرکت مجھے بری معلوم ہوئی، چنانچہ میں نے شام کو گھر آ کر اپنے سولسٹر کو ٹیلی فون کیا جس نے مجھے بتایا کہ میری گرفتاری غیر قانونی ہے، اس لئے حسب الحکم لاہور کی عدالت میں حاضر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے ایسا ہی کیا لیکن ۸/جنوری ۱۹۴۵ء کو مجھے میرے مکان پر رات کے دس بجے قانونی طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ عصمت چغتائی (مسز شاہد لطیف) کے ساتھ بھی قریب قریب یہی سلوک ہوا۔

۴/فروری ۱۹۴۵ء کے ’’قومی جنگ‘‘ (بمبئی) میں، یہ ادب اور تہذیب پر حملہ ہے، کے عنوان سے ایک مضمون علی سردار جعفری کے قلم سے شائع ہوا جس کی ابتدائی سطور یہ ہیں، ’’اردو کے بہترین افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کے نام بہت مشہور ہیں۔ حال ہی میں منٹو کے افسانوں کا ایک نیامجموعہ ’دھواں‘ اور عصمت کے افسانوں میں ایک نیا مجموعہ ’چوٹیں‘ دہلی سے شائع ہوا ہے۔ ان مجموعوں میں دونوں افسانہ نگاروں کی بعض بہت اچھی کہانیاں شامل ہیں، لیکن معلوم ہوا ہے کہ حکومت پنجاب نے عصمت اور منٹو کے بعض افسانوں کو عریاں قرار دے دیا ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ عتاب کون کون سے افسانے پر نازل ہوا ہے، لیکن دونوں کتابیں زد میں ہیں۔ مقدمے کی سماعت ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ اسپیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ۲/فروری کو عصمت اور منٹو کی پیشی ہونے والی ہے‘‘

لیکن عدالتی کارروائی سے پہلے ہی ان دونوں پر بہت کچھ گزر گئی۔ دسمبر ۴۴ء کو بمبئی کی پولیس نے عصمت چغتائی کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کر لیا اور ایک ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا۔ ۶ دسمبر کو عصمت کو دادر پولیس کورٹ میں حاضری دینی پڑی اور انہیں حکم ملا کہ ۶ جنوری ۴۵ء کو دوبارہ حاضر ہوں۔ جنوری میں پنجاب سے عصمت کا وارنٹ آ گیا اور انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس مرتبہ دو ہزار روپے کی ضمانت دے کر گلو خاصی ہوئی اور حکم ملا کہ عصمت ۲ فروری کو لاہور کے اسپیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جا کر حاضری دیں۔ تقریباً یہی حشر سعادت حسن منٹو کا ہوا۔ سعادت حسن منٹو کا حشر کچھ زیادہ ہی قابل رحم تھا۔۔۔ مجھے ان دنوں اعصابی درد کی شکایت تھی۔ گھر میں رات کے دس بجے جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں مارے درد کے کراہ رہا تھا۔ سینے پر گرم بوتل تھی، لیکن حکم حاکم مرگ مفاجات لاہور حاضر عدالت ہونا ہی پڑا۔

اس دفعہ مقدمہ رائے صاحب لالہ سنت رام اسپیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔۔۔ ایک لطیفہ سن لیجئے۔ عدالت میں داخل ہونے سے پہلے ایک ادھیڑ عمر کے شریف سے صاحب آئے اور مجھ سے ہاتھ ملا کر کہا، ’’آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی!‘‘ میں نے پوچھا، ’’آپ کا اسم گرامی؟‘‘ ادھیڑ عمر کے شریف صاحب نے جواب دیا، ’’نانک چند ناز۔‘‘ میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا، ’’معاف کیجئے! مجھے آپ سے مل کر خوشی نہیں ہوئی۔‘‘ لالہ نانک چند ناز استغاثہ کے معزز ترین گواہ تھے جو میرے اور عصمت چغتائی، دونوں کے خلاف بھگتے۔۔۔ آپ واقعی بھگتے۔۔۔ ایک اور لطیفہ سن لیجئے۔ لالہ جی نے عصمت کے افسانے ’لحاف‘ کے متعلق کہا کہ اس میں گندے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ ہمارے وکیل مسٹر ہیرا لال نے پوچھا، ’’مثلاً؟‘‘

لالہ جی نے ’چوٹیں‘ اٹھالی۔ کافی دیر ’لحاف‘ کی ورق گردانی کے بعد ایک لفظ نکالا، مثلاً ’’عاشق!‘‘ ہم سب مسکرا دیے۔ مسٹر ہیرا لال نے لالہ جی سے کہا، ’’یہ لفظ گندا ہے تو آپ اس کی جگہ کوئی دوسرا تجویز کر دیجئے۔‘‘ لالہ جی سوچنے لگے۔ مسٹر ہیرا لال نے پوچھا، ’’یار، کیسا رہے گا؟‘‘ اس دفعہ رائے صاحب لالہ سنت رام بھی مسکرا دیے۔

جب تک استغاثے کے گواہ پیش ہوتے رہے، ایسی مسکراہٹیں جاری رہیں، لیکن عدالت برخاست ہونے سے پہلے جب ہمارے وکیل نے درخواست پیش کی کہ مجھے اور عصمت کو آئندہ پیشیوں میں حاضر ہونے سے معاف کر دیا جائے، اور جب مجسٹریٹ صاحب نے اسے مسترد کر دیا تو ہم دونوں کو یہ تکلیف دہ احساس ہوا کہ ہم عدالت میں پیش تھے اور ہم پر فحاشی کاسنگین جرم عائد تھا۔۔۔ مجھے اس کا بھی شدید احساس ہوا کہ سخت سردی ہے اور میں اعصابی درد میں مبتلا ہوں۔ عدالت سے باہر مسٹر ہیرا لال سے مشورہ کیا گیا۔ ایک ہی صورت تھی کہ ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے، جو فوراً ہی داخل کر دی گئی۔ دوسرے روز میں اور عصمت آنریبل جسٹس اچھر ورام کی عدالت میں پیش ہوئے۔ آپ نے ہم دونوں کو غور سے دیکھا اور کہا، ’’مجھے آپ دونوں کے افسانے بہت پسند ہیں۔‘‘ ہمیں بہت خوشی ہوئی لیکن انہوں نے اپیل کے کاغذات آنریبل جسٹس دین محمد کی عدالت میں منتقل کر دیے۔

اب پھر دوسرے روزز حاضر ہونا تھا۔ شام کو میری طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ اتفاق سے میرا بھانجا میجر عبد الوحید ان دنوں لاہور کے ملٹری ہسپتال میں متعین تھا۔ اس نے میرا ایکسرے لیا اور بتایا مجھے ہائی ڈرونیو مورتھوریکس ہے۔ یعنی میرے داہنے پھیپھڑے کے ایک حصے میں پانی اور ہوا داخل ہوئی ہے۔ میجر وحید کے کہنے پر میں نے دوسرے روز صبح سویرے کرنل امیر چند سے بھی تشخیص کرائی۔ انہوں نے وہی مرض بتایا اور رائے دی کہ مجھے آرام کرنا چا ہیئے۔ میں نے ان سے سر ٹیفکیٹ لے لیا کہ شاید کام آ جائے، داشتہ آید بکار۔

دوسرے روز آنریبل جسٹس دین محمد کی عدالت میں پیش ہوا۔ عصمت غیر حاضر تھی۔ جسٹس دین محمد صاحب نے قہر آلود نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بڑبڑائے، ’’ان لوگوں کا وجود ننگ ادب ہے۔‘‘ مجھے ایسا لگا جیسے میری قسمت پر مہر لگا دی گئی ہے۔ انہوں نے اپیل منظور کرنے سے انکار کر دیا، لیکن جب میں نے اپنے وکیل سے کرنل امیر چند کا سرٹیفیکیٹ پیش کرنے کے لئے کہا تو اپیل ایک قہر آلود دستخط نے منظور کر دی۔۔۔ میں بمبئی واپس چلا آیا۔

بمبئی میں بہت دیر تک ڈاکٹروں میں یہ بحث ہوتی رہی کہ میرا مرض کیا ہے۔ میجر وحید اور کرنل امیر چند کی تشخیص یہ کہتی تھی کہ ’’مجھے ہائی ڈرونیو موتھوریکس‘‘ ہے لیکن ڈاکٹر لیملا اور ڈاکٹر ایف ڈبلیو برجر (یا برگر) کی ایکسرے دیکھنے کے بعد یہ رائے تھی کہ صرف ’’نیوموتھوریکس‘‘ ہے۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ ڈاکٹر ایچ پی مودی سے جوریڈیالوجی کے ماہر ہیں، رجوع کیا جائے، چنانچہ انہوں نے میرا پرانا ایکسرے دیکھنے اور نیا امتحان لینے کے بعد ڈاکٹر ایف ڈبلیو برجر (یا برگر) کو خط لکھا، ’’مریض اس وقت نارمل حالت میں ہے۔ ’نیو موتھوریکس‘ اور ’سیال مادہ‘ بالکل غائب ہے۔ یہ کیس جیساکہ ظاہر ہے سپانٹینس ’نیو موتھوریکس‘ کی قبیل سے تھا۔ ایسے چند کیس بعض اوقات ’کوخ‘ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘‘

اس ’’کوخ‘‘ کا مطلب مجھے لاہور میں میجر وحید نے بتایا جب میں اس مقدمے کا فیصلہ سننے کے لئے گیا۔ مطلب یہ تھا کہ ایسے چند کیس بعض اوقات دق میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔۔۔ لیکن دق اور زچ میں اس وقت ہوا جب میں نے صفائی کے گواہوں کی فہرست تیار کی، اور رائے صاحب لالہ سنت رام نے ان کی گواہی بذریعہ کمیشن لینے سے انکار کر دیا۔ کوئی گواہ حیدر آباد میں تھا، کوئی لکھنؤ میں اور کوئی بمبئی میں، لیکن رائے صاحب مصر تھے کہ سب کے سب لاہور میں حاضر ہوں۔۔۔ مکرمی نیاز فتح پوری صاحب کو جب لکھنؤ میں اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے لکھا، ’’یقیناً کمیشن کے ذریعے شہادت قلم بند ہو سکتی تھی اور اس میں بڑی آسانی تھی۔ تعجب ہے کہ مجسٹریٹ نے اسے منظور نہیں کیا اور آپ کے مشیر قانون نے کیوں اس پر زور نہ دیا۔‘‘

مجھے معلوم نہیں مسٹر ہیرا لال نے اس پر زور دیا تھا یا نہیں۔ بہرحال، رائے صاحب لالہ سنت رام کا فیصلہ اٹل تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قاضی عبد الغفار صاحب ایڈیٹر پیام حیدر آباد، لیفٹیننٹ کرنل قریشی (آئی ایم ایس بمبئی)، نیاز فتح پوری صاحب ایڈیٹر نگار لکھنؤ، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم صاحب ایم اے ایل، ایل بی پی ایچ ڈی (اس وقت پرنسپل) امر سنگھ کالج، سری نگر، مسٹر ہریندر ناتھ چٹو پادھیائے بمبئی جیسے اہل الرائے صاحبان کے خیالات سے نہ صرف میں بلکہ عدالت بھی محروم رہی۔ میں نے ان کو اور دوسرے حضرات کو گواہی کی دعوت ان الفاظ میں دی تھی،

(بمبئی مورخہ ۳۰ ستمبر)

مکرمی!
تسلیمات۔ لاہور کی عدالت میں میرے ایک افسانے ’دھواں‘ پر فحاشی کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ میں نے آپ کو گواہ صفائی کے طور پر بلایا ہے۔ متذکرہ صدر افسانے کے بارے میں آپ کی جو رائے بھی ہو، مجھے منظور ہوگی، اس لئے فحاشی اور غیر فحاشی کے اہم موضوع پر آپ جیسے اہل الرائے ادیب اور صاحب قلم کے خیالات نہ صرف میرے لئے بلکہ ملکی ادب کے لئے مفید ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری یہ دعوت قبول فرمائیں گے۔ شکریہ!

نیاز کیش
سعادت حسن منٹو

سب نے میری دعوت قبول کی جس کے لئے میں شکرگزار ہوں۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب سیکرٹری ’انجمن ترقی اردو‘ ہند نے میرے عریضے کا جواب نہ دیا۔ بہت ممکن ہے ان تک پہنچا ہی نہ ہو۔۔۔ سردار دیوان سنگھ مفتون ’ایڈیٹر ریاست ‘ کی طرف سے جب مجھے کوئی رسید نہ آئی تو مجھے بہت غصہ آیا۔۔۔ کیوں کہ مجھے ان کی دوستی پر ناز ہے۔۔۔ میں نے پھر ان کو لکھا، جواب آیا، ’’آپ کا دوسرا خط ملا۔ میرا داخلہ پنجاب میں بند ہے، اس لئے شہادت کیسے دوں۔ یہی میں نے سمن پر لکھ دیا تھا۔ اگر مجسٹریٹ، پنجاب گورنمنٹ سے اجازت لے لے تو میں جانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

ایک اور لطیفہ سنیئے! بمبئی سے میں نے لاہور میں پروفیسر موہن سنگھ دیوانہ کو گواہی دینے کے لئے لکھا۔ سمن ان کے پاس پہلے پہنچ چکے تھے۔ میرا خط انہیں دیر کے بعد ملا، چنانچہ انہوں نے ایک کارڈ لکھا،

حضرت سلامت! آپ کے وکیل سے ایک مرتبہ پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے نہ مقدمے کی وجہ بیان کی نہ یہ کہا کہ کس افسانے پر دھرے گئے ہو۔ ۴ کو پیشی تھی۔ دس بجے حاضر عدالت ہوا۔ سوا بارہ بجے تک دھوپ میں سڑتا رہا۔ ٹانگوں کو مسلتا اور بلغم نکالتا رہا۔۔۔ نہ جائے نشستن نہ اذن رفتن۔ سوا بارہ بجے بلوایا گیا۔ ’’کیوں جی، وہ کہانیاں تم نے پڑھی ہیں۔‘‘

’’حضور نہیں۔‘‘

’’برخاست!‘‘

لنگڑاتا لنگڑاتا گھر پہنچا۔ دیکھا کہ ایک بڑے پیٹ والا لفافہ لیٹر بکس سے جھانک رہا ہے جس میں حضور کے ارشادات تھے۔۔۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں بے قصور ہوں۔ آپ خفا نہ ہوں گے کہ ایک ہم پیشہ ’قلم مار‘ نے یہ کیا حرکت کی۔ میں خفا ہوں کہ وکیل سست، مؤکل سست تو۔۔۔ منٹو کو سستی کی بیماری ہو، یقین نہیں آتا۔

اور مجھے یہ یقین نہیں آتا کہ پروفیسر موہن سنگھ دیوانہ نے میری کہانیاں پڑھی ہی نہیں تھیں۔۔۔ غلطی مجھ سے بھی ہوئی کہ میں نے ’بڑے پیٹ والے لفافے‘ عین اس وقت بھیجے جبکہ سمن جاری ہو چکے تھے۔ ان لفافوں میں، میں نے اپنے اس تحریری بیان کی نقل بھیجی تھی جو میں نے عدالت میں دیا تھا۔ چونکہ اس بیان کا میری تحریروں سے گہرا تعلق ہے، اس لئے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں۔

’’میں ساقی بک ڈپو، دہلی کی مطبوعہ کتاب بعنوان ’دھواں‘ کا مصنف ہوں۔ یہ کتاب میں نے ۱۹۴۱ء میں جب کہ میں آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں ملازم تھا، ساقی بک ڈپو کے مالک میاں شاہد احمد صاحب کو غالباً تین یا ساڑھے تین سو روپے میں فروخت کی تھی۔ اس کے جملہ حقوق اشاعت اب ساقی بک ڈپو کے پاس ہیں۔ اس کتاب کے جو نسخے میں نے عدالت میں دیکھے ہیں، ان کے ملاحظے سے پتا چلتا ہے کہ یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ چوبیس افسانوں کے اس مجموعے میں جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں، دو افسانے بعنوان ’دھواں‘ اور ’کالی شلوار‘ استغاثے کے نزدیک عریاں اور فحش ہیں۔۔۔ مجھے اس سے اختلاف ہے کیوں کہ یہ دونوں کہانیاں عریاں اور فحش نہیں ہیں۔

کسی ادب کے متعلق ایک روزانہ اخبار کے ایڈیٹر، ایک اشتہار فراہم کرنے والے اور ایک سرکاری مترجم کا فیصلہ صائب نہیں ہو سکتا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ تینوں کسی خاص اثر، کسی خاص غرض کے تحت اپنی رائے قائم کر رہے ہوں، اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں حضرات ایسی رائے دینے کے اہل ہی نہ ہوں کیوں کہ کسی بڑے شاعر، کسی بڑے افسانہ نگار کے افسانوں پر صرف وہی آدمی تنقید کر سکتا ہے جو تنقید نگاری کے فن کے تمام عواقب و عواطف سے آگاہ ہو۔ استغاثے نے میرے ان دو افسانوں پر کوئی بصیرت افروز تنقید نہیں کی۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ یہ دونوں افسانے فحش ہیں، اس آدمی کی، جو روشنی کا خواہش مند ہے، جو اپنے عیوب و محاسن جاننا چاہتا ہے اور ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے، ہر گز ہر گز تسکین نہیں ہوتی۔۔۔ میں اگر جواب میں صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو جاؤں کہ یہ دونوں افسانے فحش نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ میں اندھیرے میں اور بھی اضافہ کر دوں گا۔۔۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گا اور جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا، اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں۔ طریق استعمال ہی ایک ایسی چیزہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو بھی فحش بنا دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی چیز فحش نہیں، لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہو سکتی ہے اگر ان کو فحش طریقے پر پیش کیا جائے۔۔۔ چیزیں فحش بنائی جاتی ہیں، کسی خاص غرض کے، ماتحت۔ عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں، اس کا ذکر بھی فحش نہیں، لیکن جب اس رشتے کو چوراسی آسنوں یا جوڑ دار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کو غلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناؤنا، مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا۔

فحش اور غیر فحش میں تمیز کرنے کے لئے شاید یہ مثال کام دے سکے، ایک آرٹ گیلری میں نمائش کے لئے ننگی عورتوں کی بہت سی تصویریں پیش ہوئیں۔ ان میں سے کسی نے بھی جیسا کہ ظاہر ہے دیکھنے والوں کا اخلاق خراب نہ کیا اور نہ ان کے شہوانی جذبات کو ابھارا۔ البتہ ایک تصویر جس میں عورت کا سارا بدن کپڑوں میں مستور تھا اور ایک خاص حصہ اس ترکیب سے نیم عریاں چھوڑ دیا گیا کہ دیکھنے والوں کے جذبات میں گدگدی ہوتی تھی، فحش قرار دی گئی۔ کیوں۔۔۔ اس لئے کہ آرٹسٹ کی نیت میں فرق تھا اور اس نے جان بوجھ کر لباس کو کچھ اس طرح اوپر اٹھا دیا تھا کہ دیکھنے والوں کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ جائے اور وہ اپنے تصور سے مدد لے کر اس نیم عریاں حصے کو عریاں دیکھنے کی کوشش کریں۔

تحریر و تقریر میں، شعرو شاعری میں، سنگ سازی و صنم تراشی میں فحاشی تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہیئے، اگر یہ ترغیب موجود ہے، اگر اس کی نیت کا ایک شائبہ بھی نظر آ رہا ہے تو وہ تحریر، وہ تقریر، وہ شعر، وہ بت، قطعی طور پر فحش ہے۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ ترغیب ’دھواں‘ میں موجود ہے یا نہیں۔۔۔ آیئے! ہم افسانے کا تجزیہ کرتے ہیں،

مسعود ایک کم سن لڑکا ہے غالباً دس بارہ برس کا۔۔۔ اس کے جسم میں جنسی بیداری کی پہلی لہر کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس افسانے کا موضوع ہے۔ ایک خاص فضا اور چند خاص چیزوں کا اثر بیان کیا گیا ہے، جو مسعود کے جسم میں دھندلے دھندلے خیالات پیدا کرتا ہے۔ ایسے خیالات جن کا رجحان جنسی بیداری کی طرف ہے۔ یہ بیداری وہ سمجھ نہیں سکتا لیکن نیم شعوری طور پر محسوس ضرور کرتا ہے۔ بے کھال کا بکرا جس میں سے دھواں اٹھتا ہے۔ سردیوں کا ایک دن جب کہ بادل گھرے ہوتے ہیں اور آدمی سردی کے باوجود ایک میٹھی میٹھی حرارت محسوس کرتا ہے۔ ہانڈی جس میں سے بھاپ اٹھ رہی ہے۔ بہن، جس کی ٹانگیں وہ دباتا ہے۔۔۔ یہ سب عناصر مل کر مسعود کے بدن میں جنسی بیداری پیدا کرتے ہیں۔ جوانی کی اس پہلی انگڑائی کو وہ غریب سمجھ نہیں سکتا اور انجام کار اپنی ہاکی سٹک توڑنے کی ناکام سعی کرتا کرتا تھک جاتا ہے۔۔۔ یہ تھکاوٹ اس بے نام سی چنگاری کو ’اس‘ کچھ کرنے کی تحریک کو دبا دیتی ہے۔

’دھواں‘ میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کیفیت، ایک جذبے، ایک تحریک کا نہایت ہی ہموار نفسیاتی بیان ہے! اصل موضوع سے ہٹ کر اس میں دو راز کار باتیں نہیں کی گئیں۔ اس میں ہمیں کہیں بھی ایسی ترغیب نظر نہیں آتی جو قارئین کو شہوانی لذتوں کے دائرے میں لے جائے، اس لیئے کہ افسانے کا موضوع ’شہوت‘ نہیں ہے۔ استغاثہ اگر ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی کم نظری ہے۔۔۔ خشخاش کے دانے افیم کی گولی بننے تک کافی مرحلے طے کرتے ہیں۔

میں نے اس کہانی میں کوئی سبق نہیں دیا۔ اخلاقیات پر یہ کوئی لیکچر بھی نہیں، کیوں کہ میں خود کو نام نہاد ناصح یا معلم اخلاق نہیں سمجھتا۔ البتہ اتنا ضرور سمجھتا ہوں کہ اس لڑکے کو مضطرب کرنے والی چیزیں خارجی تھیں۔ انسان اپنے اندر کوئی برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ خوبیاں اور برائیاں اس کے دل و دماغ میں باہر سے داخل ہوتی ہیں۔ بعض ان کی پرورش کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے۔ میرے نزدیک قصائیوں کی دکانیں فحش ہیں کیونکہ ان میں ننگے گوشت کی بہت بدنما اور کھلے طور پر نمائش کی جاتی ہے۔۔۔ میرے نزدیک وہ باپ اپنی اولاد کو جنسی بیداری کا موقع دیتے ہیں جو دن کو بند کمروں میں کئی کئی گھنٹے اپنی بیوی سے سر دبوانے کا بہانہ لگا کر اس سے ہم بستری کرتے ہیں۔

ہندوستان میں بچوں کے اندر بہت کم سنی ہی میں جنسی بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ کسی حد تک آپ کو میرے افسانے کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہے۔۔۔ اتنی چھوٹی عمر میں جنسی بیداری کا پیدا ہونا میرے نزدیک بہت ہی بھونڈی چیز ہے۔ یعنی اگر میں کسی چھوٹے بچے کو جنسیات کی طرف راغب دیکھوں تو مجھے کوفت ہوگی، میرے صناعانہ جذبات کو صدمہ پہنچے گا۔ افسانہ نگار اس وقت اپنا قلم اٹھاتا ہے جب اس کے جذبات کو صدمہ پہنچتا ہے۔ مجھے یاد نہیں کیوں کہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن ’دھواں‘ لکھنے سے پہلے مجھے کوئی منظر، کوئی اشارہ یا کوئی واقعہ دیکھ کر ضرور ایسا صدمہ پہنچا ہوگا جو افسانہ نگار کے قلم کو حرکت بخشتا ہے۔

افسانے کا مطالعہ کرنے سے یہ امر اچھی طرح واضح ہو سکتا ہے کہ میں نے اس بے نام سی لذت میں جو مسعود کو محسوس ہو رہی تھی، خود کو یا قارئین کو کہیں شریک نہیں کیا۔۔۔ یہ ایک اچھے فن کار کے قلم کی خوبی ہے۔ اس افسانے میں سے چند سطور پیش کرتا ہوں جس سے افسانہ نگار کے غایت درجہ محتاط ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اس نے کہیں بھی مسعود کے دماغ میں شہوانی خیالات کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا۔ ایسی لغزش افسانے کا ستیاناس کر دیتی۔

(۱) مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہوا، جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا۔ ٹھیک اسی طرح، جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں۔۔۔ تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔

(۲) کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازی گر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا بھی اسی طرح پھسلتا ہوگا۔

(۳) بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سوچا، ’’کلثوم کو اگر ذبح کیا جائے تو کھال اترنے پر کیا اس کے گوشت میں سے دھواں نکلے گا۔‘‘ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کر دیا، جس طرح وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔

خط کشیدہ الفاظ اس بات کے ضامن ہیں کہ مسعود کا ذہن کہیں بھی شہوت سے ملوث نہیں ہوا۔ وہ اپنی بہن کی کمر دباتا ہے جس طرح وہ مزدور مٹی گوندھتے ہیں۔ ٹانگیں دباتا ہے تو اس کا خیال بازی گر کی طرف چلا جاتا ہے، جس کا تماشا اس نے ایک بار اپنے اسکول میں دیکھا تھا۔۔۔ اور جب یہ سوچتا ہے کہ اس کی بہن ذبح کر دی جائے تو کیا اس کے گوشت میں سے دھواں نکلے گا تو فوراً اسے بری بات سمجھ کر اپنے دماغ سے نکال دیتا ہے اور خود کو مجرم سمجھتا ہے۔

خدا جانے استغاثہ اس افسانے کو فحش کیوں کہتا ہے جس میں فحاشی کا شائبہ تک موجود نہیں۔۔۔ اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا۔۔۔ عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا استرا نہیں کہہ سکتے۔۔۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے، مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کو بکری کا ایک معصوم بچہ ہی معصیت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔ دنیا میں ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو مقدس کتابوں سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں۔۔۔ اور ایسے انسان بھی آپ کو مل جائیں گے، لوہے کی مشینیں جن کے جسم میں شہوت کی حرارت پیدا کر دیتی ہیں۔۔۔ مگر لوہے کی ان مشینوں کا، جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں، کوئی قصور نہیں۔ اسی طرح نہ بکری کے معصوم بچے کا، ا ور نہ مقدس کتابوں کا۔

ایک مریض جسم، ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے، جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہیں کے لئے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے۔ میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لئے ہیں، ایسے انسانوں کے لئے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔۔۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے۔۔۔ جو کسی ادب پارے کو ایک ہی دفعہ نگل نہیں جاتے۔

روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمہ اچھی طرح چبا کر کھاؤ، لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے۔ پڑھنے کے لئے بھی یہی موٹا اصول ہے کہ ہر لفظ کو، ہر سطر کو، ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمہارے دماغ میں پیدا ہو گا، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے، اچھی طرح ہضم ہو سکے، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے جس کے لئے تم لکھنے والے کو ذمہ دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی تمہاری بدہضمی کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے!

میں ایک مثال سے اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ فرانس میں ایک بہت بڑا افسانہ نگار گائی دی موپاساں گزرا ہے۔ جنسیات اس کا محبوب موضوع تھا۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے اس کے افسانوں کا اپنی علمی کتابوں میں حوالہ دیا ہے۔ اپنے ایک افسانے میں وہ ایک لڑکے اور لڑکی کی داستان بیان کرتا ہے جو بے حد الہڑ تھے۔ پہلی رات کے متعلق دونوں نے سنی سنائی باتوں سے ایک عجیب و غریب تصویر اپنے ذہن میں کھینچ رکھی تھی۔ دونوں اس خیال سے کپکپا رہے تھے کہ خدا معلوم کتنی بڑی لذت ان کو پہلی رات کے ملاپ سے ملے گی۔

دونوں کی شادی ہو گئی۔۔۔ دولہا ماہ عسل منانے کی خاطر دلہن کو ایک ہوٹل میں لے گیا۔ وہاں پہلی رات کو۔۔۔ اس رات کو جس میں دونوں کے خیال کے مطابق شاید فرشتے اتر کر ان کو لوریاں دینے والے تھے، دولہا اور دلہن ہم بستر ہو گئے۔۔۔ دونوں لیٹے تھے اور بس۔۔۔ دلہن نے شامت اعمال سے اتنا کہہ دیا، ’’بس۔۔۔ کیا یہی ہماری پہلی رات تھی جس کے ہم دونوں اتنے شیریں خواب دیکھا کرتے تھے۔‘‘ دولہا کو یہ بات کھا گئی۔ آخر مرد ہی تو تھا۔ اس نے سوچا یہ میری مردانگی پر حملہ ہے۔۔۔ چنانچہ اس کی مردانگی بالکل ہی ختم ہو گئی۔۔۔ عرق ندامت میں غرق وہ حجلہ عروسی سے باہر نکل گیا، اس غرض سے کہ اپنی ناکام زندگی کسی دریا کے سپرد کر دے۔

عین اس وقت جب یہ نیا نویلا دولہا اس خطرناک فیصلے پر پہنچا، فرانس کی ایک کسبی۔۔۔ ایک ویشیا پاس سے گزری جو غالباً گاہک تلاش کر رہی تھی۔ اس عصمت باختہ عورت نے اس کو اشارہ کیا۔ دولہا نے محض انتقام لینے کے لئے۔۔۔ ساری عورت ذات سے بدلہ لینے کے لئے اس کو اس اشارے کا جواب دیا کہ ہاں میں تیار ہوں۔ وہ ٹکھیائی اسے اپنے گھر لے گئی۔ اس کے غلیظ گھر میں دولہا وہ کام کرنے میں کامیاب ہو گیا جو وہ اپنے نفیس ہوٹل کے حجلہ عروسی میں نہ کر سکا تھا۔۔۔ اب وہ اس ویشیا کو بھول گیا۔۔۔ دوڑا دوڑا اپنی نئی بیاہتا بیوی کے پاس پہنچا جیسے اسے کھوئی ہوئی دولت مل گئی ہے۔۔۔ دونوں پاس پاس لیٹے تھے مگر اب اس کی بیوی کو وہ شیریں خواب دیکھنے کی خواہش باقی نہیں رہی تھی جس کا اس نے پہلے گلہ کیا تھا۔

یہ افسانہ پڑھ کر اگر کوئی شخص جو پہلی رات کو ناکام رہا ہو، سیدھا ویشیا کے کوٹھے کا رخ کرے تو میں سمجھتا ہوں اس جیسا چغد اور کوئی نہیں ہوگا۔ میرے ایک دوست نے یہی بے وقوفی کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے اپنا کھویا ہوا وقار تو مل گیا، پر اس کے ساتھ ہی ایک مکروہ مرض چمٹ گیا جس کے علاج کے لئے اسے کافی زحمت اٹھانا پڑی۔

پچھلے دنوں میں نے آل انڈیا ریڈیو بمبئی سے ایک تقریر نشر کی تھی۔ اس میں، میں نے کہا تھا، ’’ادب ایک فرد کی اپنی زندگی کی تصویر نہیں۔ جب کوئی ادیب قلم اٹھاتا ہے تو وہ اپنے گھریلو معاملات کا روزنامچہ پیش نہیں کرتا۔ اپنی ذاتی خواہشوں۔۔۔ خوشیوں، رنجشوں، بیماریوں اور تندرستیوں کا ذکر نہیں کرتا۔ اس کی قلمی تصویروں میں بہت ممکن ہے آنسو اس کی دکھی بہن کے ہوں، مسکراہٹیں آپ کی ہوں اور قہقہے ایک خستہ حال مزدور کے۔۔۔ اس لئے اپنی مسکراہٹوں، اپنے آنسوؤں اور اپنے قہقہوں کی ترازو میں ان تصویروں کو تولنا بہت بڑی غلطی ہے۔۔۔ ہر ادب پارہ ایک خاص فضا، ایک خاص اثر، ایک خاص مقصد کے لئے پیدا ہوتا ہے، اگر اس میں یہ خاص اثر اور یہ خاص مقصد محسوس نہ کیا جائے تو یہ ایک بے جان لاش رہ جائے گی۔‘‘

میں ایک زمانے سے لکھ رہا ہوں۔ گیارہ کتابوں کا مصنف و مؤلف ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو کے تقریباً ہر اسٹیشن سے میرے ڈرامے اور فیچر براڈ کاسٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد سو سے اوپر ہے۔۔۔ میں تحر یرو تصنیف کے جملہ آداب سے واقف ہوں۔۔۔ میرے قلم سے بے ادبی شاذو نادر ہی ہو سکتی ہے۔ میں فحش نگار نہیں، افسانہ نگار ہوں۔ دوسرے افسانے ’کالی شلوار‘ کے متعلق میں نے اس لئے کچھ نہیں کہا کہ لاہور کی سیشن کورٹ میں اسے فحاشی سے بری قرار دیا جا چکا ہے۔‘‘

میرے اس بیان کا کچھ اثر نہ ہوا۔ صفائی کے گواہوں میں ڈاکٹر سعید اللہ، ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی، پروفیسر کنہیا لال کپور، ایم اے، ایل ایل بی، ڈاکٹر آئی لطیف ایم اے، پی ایچ ڈی، مولانا باری علیگ، دیوندر ستیارتھی جیسے اہل الرائے ہستیاں موجود تھیں۔ ان حضرات نے اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے سارا سارا دن عدالت میں گزار کر میرے حق میں گواہی دی اور کہا کہ زیرعتاب افسانوں میں فحاشی کا شائبہ بھی موجود نہیں، لیکن رائے صاحب لالہ سنت رام نے دونوں افسانے فحش قرار دیے اور مجھے دو سو روپیہ جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں کتنے مہینوں کی قید بامشقت تھی، تھی یا نہیں، اس کا مجھے علم نہیں۔ میں نے جب اپنی جیب سے دو سو روپے نکالے تو اسپیشل مجسٹریٹ صاحب کے ہونٹوں پر ایک اسپیشل مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ آ پ نے کہا، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئے تھے۔‘‘

باوجود کوشش کے میرے ہونٹوں پر اسپیشل مسکراہٹ پیدا نہ ہو سکی۔ سیشن میں اپیل کی گئی۔ پیروی مسٹر ہیرا لال سیبل نے کی۔ کئی مہینے گزرنے پر ایک روز ان کا تار آیا کہ مبارک ہو، سیشن کورٹ نے اپیل منظور کر لی ہے۔ جرمانہ واپس ہو جائے گا۔ تیسری دفعہ انجام بخیر ہوا!

ایک اور لطیفہ سنئے۔ چند روز ہوئے، ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے، میں نے نوکر سے کہا، ’’پوچھو کون ہے؟‘‘ جواب آیا، ’’سی آئی ڈی کا آدمی۔‘‘ ظاہر ہے کہ لاہور سے گرفتاری کا وارنٹ تھا لیکن جب میں اس سی آئی ڈی کے آدمی سے ملا اور اس سے کہا، ’’فرمایئے، اب کی میری کس کہانی پر عتاب نازل ہوا ہے۔‘‘ تو وہ جیسے کچھ سمجھا ہی نہیں۔ کہنے لگا، ’’ہم تپاس (پوچھ گچھ) کرنے آیا ہے۔ تمہارا نام ادھر کمیونسٹ پارٹی کے آفس میں چوپڑی (کتاب) میں لکھا تھا۔۔۔ بولو، تمہارا کیا تعلق ہے اس سے؟‘‘ یہ سن کر مجھے تسلی ہوئی اور مذاق سوجھا، ’’چوپڑی سے یا کمیونسٹ پارٹی سے؟‘‘

’’کمیونسٹ پارٹی سے؟‘‘

میں نے جواب دیا، ’’ تعلق ہے مگر ناجائز۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیئے کہ تمہاری حکومت یہی سمجھتی ہے۔ ورنہ تم یہاں تپاس کرنے کیوں آتے!‘‘ یہ قصہ بھی ختم ہوا۔

آخر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جنہوں نے لاہور کی ایسی عدالت میں جہاں شریف انسانوں کو بیٹھنے کے لئے ایک ٹوٹی ہوئی کرسی بھی نہیں ملتی، گھنٹوں اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے بھینسوں کے آگے بین بجائی۔ مسٹر اے ایس بخاری کا بھی ممنون و متشکر ہوں۔ متذکرہ صدر مقدمے کے فیصلے کے بعد یا اس سے کچھ دیر پہلے، آپ نے بمبئی ریڈیو اسٹیشن میں مجھے بلایا اور بڑی شفقت سے بتایا کہ وہ اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر میرے اور عصمت کے عتاب زدہ افسانوں کے متعلق ہندوستان کے مشہور ادیبوں کی رائے مرتب کرنے والے ہیں، اور یہ کہ انہوں نے لاہور میں عدالت سے بیانات وغیرہ کی نقل لینے کے لئے ایک آدمی بھی متعین کر دیا ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آپ نے اتفاق سے میرا افسانہ نہیں پڑھا تھا، چنانچہ ان کے ارشاد کے مطابق ایک جلد اس کتاب کی ان کو دہلی روانہ کر دی۔ اس ملاقات کو تقریباً ایک برس ہو چکا ہے، امید ہے بخاری صاحب نے اپنا کام ختم کر لیا ہوگا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.