Jump to content

لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں؟

From Wikisource
لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں؟ (1942)
by سعادت حسن منٹو
319934لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں؟1942سعادت حسن منٹو

اس حقیقت کی کیا توضیح ہو سکتی ہے کہ لوگ ایسی اشیاء استعمال میں لاتے ہیں جو انہیں بے خود و مدہوش بنا دیں۔ مثال کے طور پر شراب، بیئر، چرس، گانجا، افیم، تمباکو اور دوسری چیزیں جو زیادہ عام نہیں مثلاً ایتھر، مارفیا وغیرہ وغیرہ۔ ان منشیات کا استعمال کیوں شروع ہوا؟ ان کا استعمال اتنی جلدی کیوں عام ہو گیا ہے۔ مہذب اور غیر مہذب لوگوں میں ان کی کھپت کیوں روز بروز بڑھ رہی ہے؟ یہ کیا بات ہے کہ جہاں شراب یا بیئر نہیں ملتی، وہاں افیم، گانجا اور چرس وغیرہ کا استعمال عام ہے اور تمباکو دنیا کے ہر کونے میں پیا جاتا ہے۔

لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں؟ آپ کسی سے یہ سوال پوچھئے کہ اس نے کیوں پینا شروع کی اور یہ کہ اب وہ کیوں پیتا ہے تو وہ غالباً یہ جواب دے گا، ’’شراب بڑی خوش گوار چیز ہے۔۔۔ اور پھر سبھی تو پیتے ہیں۔‘‘ شاید وہ یہ بھی کہے، ’’میں پیتا ہوں ا س لئے کہ مجھے اس سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ اور وہ لوگ جنہوں نے آج تک اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ شراب بری چیز ہے یا اچھی۔ اپنے جواب میں یہ کہیں گے کہ وہ صحت قائم رکھنے کے لئے شراب پیتے ہیں۔۔۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو آج سے بہت عرصہ پہلے بے بنیاد ثابت ہو چکا ہے۔

کسی تمباکو پینے والے سے پوچھئے کہ حضرت آپ نے کس ضرورت کے ماتحت تمباکو پینا شروع کیا اور اب آپ تمباکو کیوں پیتے ہیں۔ تو اس کا جواب بھی کچھ اس قسم کا ہوگا، ’’وقت کاٹنے کیلئے ہر شخص تمباکو پیتا ہے۔‘‘ وقت کاٹنے کے لئے، فرحت حاصل کرنے کے لئے۔۔۔ وقت کاٹنے کے لئے، فرحت حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی اپنی انگلیاں چٹخائے، سیٹی بجائے، کچھ گنگنائے یا اسی قسم کی کوئی اور چیز کرئے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ ایسا کرنے سے نیچر کی دولت ضائع نہیں ہوتی اور نہ کوئی ایسی چیز ہی خرچ ہوتی ہے، جس کے بنانے پر بے شمار سرمایہ اور محنت صرف ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ اس سے نہ اپنے آپ کو اور نہ دوسروں کو کوئی دکھ ہی پہنچتا ہے، لیکن تمباکو، چرس، شراب اور افیم بنانے پر لاکھوں آدمیوں کی محنت خرچ ہوتی ہے اور کروڑوں ایکڑ زمین بھنگ، پوست، انگور اور تمباکوکی کاشت کے لئے وقف کر دی جاتی ہے۔

علاوہ بریں یہ مسلمہ نقصان دہ چیزیں نہایت ہی خطرناک برائیاں پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہیں اور لوگوں کو متعدی امراض اور جنگوں سے کہیں زیادہ تباہ و برباد کرتی ہیں۔ یہ تمام حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس لئے ظاہر ہے کہ ان کا استعمال ’’وقت کاٹنے کے لئے، فرحت حاصل کرنے کے لئے‘‘ ہر گز ہر گز نہیں ہو سکتا اور نہ یہ بہانہ ہی چل سکتا ہے کہ’’ہر شخص پیتا ہے۔‘‘

ان کے استعمال کی کوئی اور ہی وجہ ہے۔ ہم ہر روز ایسے آدمیوں سے ملتے ہیں جو اپنے بال بچوں سے محبت کرتے ہیں اور جو ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں، لیکن وہ اس کے باوصف شراب، بھنگ، افیون یا چرس پر اتنا روپیہ خرچ کرتے ہیں جو ان کے غربت زدہ اہل و عیال کی حالت بہتر بنا سکتا ہے یا کم از کم ان کو افلاس سے نجات دلا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال کی ضروریات اور ان کی مشکلات پر مدہوش کرنے والی چیزوں کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی اور ہی معقول وجہ کارفرما ہوتی ہے۔ یہاں ’’وقت کاٹنے، فرحت حاصل کرنے کے لئے اور ہر شخص پیتا ہے۔‘‘ کی دلیل عائد نہیں ہو سکتی۔ کوئی ٹھوس وجہ اس فعل کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ ٹھوس وجہ۔۔۔ جیسا کہ میں نے اس موضوع پر کتابیں پڑھ کر، دوسرے لوگوں کا مشاہدہ کر کے اور خاص طور پر اپنی اس حالت کا اندازہ کرنے کے بعد جب میں شراب اور تمباکو کو پیا کرتا تھا، سوچا ہے، مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے۔

اگر کوئی شخص اپنی زندگی پر نظر کرے تو اکثر اوقات وہ اپنے اندر دو ہستیاں موجود پائے گا۔ ایک اندھی اور جسمانی ہے۔ دوسری بصارت کی مالک ہے، یعنی روحانی۔ اول الذکر اندھا حیوانی وجود کھاتا ہے، پیتا ہے، آرام کرتا ہے، سوتا ہے، بڑھتا ہے، حرکت کرتا ہے، بالکل کوک بھری مشین کے مانند اور روحانی وجود جو کہ دیکھتا ہے یعنی بصارت کا مالک ہے، حیوانی وجود سے بندھا ہوا ہے، یہ اپنے آپ کچھ نہیں کرتا۔ صرف اپنے ساتھی کی حرکات جانچتا رہتا ہے۔ جب یہ حیوانی وجود کے کسی عمل کو پسند کرتا ہے تو اس کے اندر گھل مل جاتا ہے اور جب یہ حیوانی وجود کے کسی عمل کو ناپسند کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے۔

اس مشاہدہ و ملاحظہ کرنے والے وجود کی تشبیہ کمپاس کی سوئی سے دی جا سکتی ہے۔ جس کا ایک سرا شمال کی طرف اور دوسرا سرا جنوب کی طرف رہتا ہے۔ ہم کو اصل سمت اور اس سوئی کا فرق صرف اسی صورت میں معلوم ہوتا ہے، اگر ہم غلط سمت جا رہے ہوں۔ ٹھیک اسی طرح روحانی وجود (جس کے اظہار کو ہم عام طور پر ضمیر کہتے ہیں) کا ایک سرا برائی کی طرف رہتا ہے اور دوسرا سرا اچھائی کی طرف، اس روحانی وجود کی موجودگی سے باخبر ہونے کے لئے ہمیں کوئی ایسا فعل کرنا پڑے گا، جو ضمیر کے خلاف ہو کیونکہ حیوانی وجود کا رخ اس مقام سے ہٹ جائے گا جس کی طرف ضمیر اشارہ کرتا رہتا ہے۔

جس طرح وہ جہاز ران جو اس بات سے آگاہ ہو کہ وہ غلط رستے پر جا رہا ہے، جب تک کمپاس کے مطابق اپنا رخ ٹھیک نہ کر لے یا اپنی غلطی کے احساس کو قطعی طور پر مٹا دے، چپو نہیں چلا سکتا اور نہ بادبانوں ہی سے کام لے سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح وہ انسان جو اپنے حیوانی وجود کی حرکات اور ضمیر کی آواز کی دوئی سے آگاہ ہو، صرف اس صورت میں اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے، اگر وہ اسے ضمیر کے مطالبات کے ساتھ ہم آہنگ و منضبط کر دے، یا پھر ان اشارات سے بالکل غافل ہو جائے جو ضمیر اس کے حیوانی وجود کی غلط روی پر اس تک پہنچاتا ہے۔ انسانی زندگی ان دو سرگرمیوں یا عامل قوتوں پر مشتمل ہے۔ ۱۔ اپنے افعال کو ضمیر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا۔ ۲۔ ضمیر کی آواز پر اپنے کان بند کر لینا تاکہ حسب معمول زندگی بسر کی جا سکے۔

بعض حضرات پہلی بات پر عمل کرتے ہیں اور بعض دوسری پر۔ اول الذکر بات صرف اخلاقی روشنی سے حاصل ہوتی ہے اور آخرالذکر بات کے لئے یعنی ضمیر کی آواز پر اپنے کان بند کر لینے کے لئے دو ذریعے ہیں۔ ایک خارجی اور ایک اندرونی۔ خارجی ذریعہ یہ ہے کہ خود کو ایسے مشاغل میں مصروف رکھا جائے جو ہماری توجہ ضمیر کے اشارات سے ہٹائے رکھیں اور اندرونی ذریعہ یہ ہے کہ خود ضمیر ہی کی روشنی کو آہستہ آہستہ گل کر دیا جائے اور اس میں اندھیرا پیدا کر دیا جائے۔ اپنے سامنے کی چیزوں کو نہ دیکھنے کے لئے انسان کے پاس دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ نگاہیں ہٹا کر کسی دوسری چیز کو دیکھنا شروع کر دیا جائے، جو زیادہ جاذب نظر ہوں اور دوسرا یہ کہ اپنی آنکھوں کی بصارت کو مسدود کر دیا جائے، اسی طرح انسان ضمیر کی آواز پر اپنے کان دو طریقوں سے بند کر سکتا ہے۔ پہلا طریقہ خارجی ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی توجہ مختلف مشاغل، تفکرات، کھیلوں وغیرہ کی طرف مبذول کر دے اور دوسرا طریقہ اندرونی ہے یعنی یہ کہ وہ توجہ پیدا کرنے والے عضو ہی کو معطل کر دے۔

ان لوگوں کے لئے جن کی قوت احساس کند ہوتی ہے اور جن کے اخلاقی احساسات محدود ہوتے ہیں، بیرونی تفریحات اکثر اوقات اس بات کے لئے کافی ہوتی ہیں کہ وہ ضمیر کے اشارات نہ سمجھیں، لیکن ان لوگوں کے لئے جو اخلاقی طور پر کافی حساس ہوتے ہیں، ایسی تفریحات بالکل ناکافی ہوتی ہیں۔ بیرونی ذرائع پورے طور پر شعور اور ضمیر کی آواز کو نہیں دبا سکتے اور نہ وہ شعور کے مطالبات ہی سے ہمیں قطعی طورپر غافل کر سکتے ہیں۔ اس لئے ظاہر ہے کہ یہ احساس، یہ شعور ہماری زندگی میں روڑے اٹکانا شروع کر دیتا ہے۔ اب وہ لوگ جو اپنے دن حسب سابق گزارنا چاہتے ہیں، اندرونی قابل اعتماد طریقے کو استعمال کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ضمیر ہی کو تاریک بنا دیا جائے، چنانچہ اس کام کے لئے وہ دماغ کو مدہوش بنانے والی چیزوں سے زہر آلود کرتے ہیں۔

(۲)

شراب، افیم، چرس، بھنگ اور تمباکو کا عالمگیر استعمال اس لئےنہیں ہوتا کہ یہ چیزیں فرحت یا دل بستگی کا سامان مہیا کرتی ہیں، بلکہ ان کا استعمال صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کے مطالبات سے خود کو چھپا لیا جائے۔

میں ایک روز بازار میں جا رہا تھا۔ میرے پاس سے دو گاڑیبان گزر رہے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا، ’’بے شک جب ہم ہوش میں ہوں تو ایسا کرتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جب آدمی ہوش میں ہو تو اسے کوئی خاص کام کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اور جب وہ شراب میں مخمور ہو تو اسے وہی کام ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ ان الفاظ میں وہ وجہ پوشیدہ ہے جو انسانوں کو مدہوش بنانے والی اشیاء کی طرف راغب کرتی ہے، لوگ ان اشیاء کو یا تو ا س لئے استعمال کرتے ہیں کہ شرم کے ان احساسات کو دبا دیں جو کسی غلط کام کرنے پر پیدا ہوتے ہیں یا پہلے ہی سے خود پر ایسی حالت طاری کر لیں جس میں وہ ضمیر کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے حیوانی وجود کی اطاعت کر سکتے ہیں۔

ہوش کی حالت میں مرد ویشیا کے مکان پر جانے سے ڈرتا ہے۔ چوری کرنے سے خوف کھاتا ہے اور کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہیں کرتا، لیکن یہ تمام کام کرتے ہوئے شرابی کو کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی آدمی اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنا چاہے تو اسے خود کو مدہوش کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس باورچی کا بیان یاد آ جاتا ہے جس نے میری ایک بوڑھی رشتہ دار کو قتل کر دیا تھا۔ اس نے عدالت میں کہا تھا کہ جب اس نے اپنی داشتہ (ایک نوکرانی) کو باہر بھیج دیا اور کام کرنے کا وقت قریب آ گیا تو اس نے چاقو لے کر کمرۂ خواب میں جانا چاہا، لیکن اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہوش کی حالت میں وہ یہ کام نہیں کر سکے گا، چنانچہ وہ لوٹا اور ’’وودکا‘‘ کے دو گلاس پینے کے بعد اس نے خود کو قتل کے لئے بالکل تیار پایا، چنانچہ اس نے کمرے میں جا کر بڑھیا کو ہلاک کر دیا۔ یہاں اسی گاڑیبان کی بات یاد آجاتی ہے کہ ’’جب ہم ہوش میں ہوں تو ایسا کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔‘‘

دس میں سے نو جرم اسی طریقے پر کئے جاتے ہیں، یعنی اس بات پر عمل کیا جاتا ہے، ’’ہمت حاصل کرنے کیلئے شراب پیو۔‘‘ وہ عورتیں جو اپنی عصمت کھوتی ہیں، ان میں سے پچاس فیصدی ایسی ہوتی ہیں جو شراب کے نشے میں اپنی زندگی کا بہترین زیور اتار کر پھینک دیتی ہیں۔ ویشیاؤں کے ہاں اکثر وہی لوگ جاتے ہیں جو شرابی ہوں، چونکہ لوگ شراب کے اس اثر سے واقف ہیں کہ یہ ضمیر کی آواز بالکل دبا دیتی ہے، ا س لئے وہ اسے جان بوجھ کر اسی کام کے لئے پیتے ہیں۔ لوگ صرف اپنے ضمیر ہی کی آواز دبانے کیلئے شراب نہیں پیتے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے ضمیر سے غافل کرنے کے لئے شراب پلاتے ہیں۔ جنگ میں دو بدو لڑائی کے وقت فوجیوں کو عام طور پر شراب پلائی جاتی ہے۔ سبستوپول پر جب فرانسیسی فوجیوں نے حملہ کیا تھا تو وہ سب کے سب مخمور تھے۔

جب کسی جگہ پر قبضہ کیا جاتا ہے اور فوجی وہاں کے بے یارومددگار بچوں اور بوڑھوں کو مارنے سے انکار کر دیتے ہیں تو عام طور پر ان کو شراب سے مدہوش کرنے کے احکام جاری کئے جاتے ہیں، مخموری کی حالت میں وہ اس کام کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جو ان سے چاہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کوئی غلط کام کرنے کے بعد شراب نوشی شروع کی۔ چونکہ وہ اپنی ندامت دور کرنا چاہتے تھے، اس لئے انہوں نے خود کو مدہوش بنانا شروع کر دیا اور پھر سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو بری زندگی بسر کرتے ہیں، منشیات کی طرف جلد راغب ہوتے ہیں۔ چور اچکے رہزن اور ویشیائیں بغیر شراب کے زندہ نہیں رہ سکتیں۔

ہر شخص یہ جانتا ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا استعمال باعث ہے ضمیر کی ٹیسیں، اور یہ کہ زندگی کے غیر اخلاقی رستوں پر چلتے وقت مدہوش بنانے والی اشیاء کا استعمال صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کو کند بنا دیا جائے اور یہ بھی ہر شخص پر واضح ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا استعمال ضمیر کو کند بنا دیتا ہے اور یہ کہ مخموری کی حالت میں آدمی وہ فعل بھی کر گزرتا ہے، جو ہوش کی حالت میں وہ کبھی نہیں کر سکتا، بلکہ یوں کہئے کہ جس کا اسے کبھی قیاس بھی نہیں ہوگا۔ ہر شخص ان باتوں کو تسلیم کرتا ہے، مانتا ہے لیکن جب مدہوش بنانے والی اشیاء چوری چکاری، قتل و غارت یا تشدد پر منتج نہیں ہوتیں، جب ان کو کسی بھیانک جرم کے بعد استعمال نہیں کیا جاتا، جب ان کو ایسے لوگ استعمال میں لاتے ہیں جو مجرم نہیں ہوتے اور جب ایسی چیزیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں استعمال کی جاتی ہیں تو عام طور پر کسی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مدہوش بنانے والی اشیاء ضمیر کو کند نہیں بناتیں۔ چنانچہ اسی خیال کہ ماتحت یہ کہا جاتا ہے کہ تھوڑی مقدار میں شراب، بیئر، افیون وغیرہ صرف فرحت حاصل کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں اور یوں ان کا ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

کہا جاتا ہے کہ جب معمولی مدہوشی کے بعد کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا جاتا، نہ چوری کی جاتی ہے اور نہ قتل کیا جاتا ہے، تو وہ بیہودہ اور فضول حرکات جو عام طور پر دیکھنے میں آتی ہیں، ان کا مدہوشی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ خود بخود وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ جب یہ لوگ جرائم سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتے، تو انہیں اپنے ضمیر کی آواز دبانے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو سکتی اور یہ کہ وہ زندگی جو منشیات کے عادی بسر کرتے ہیں، بڑی اچھی زندگی ہوتی ہے اور اگر وہ اس عادت کو چھوڑ دیں تو بھی ان کی زندگی ویسی ہی اچھی رہ سکتی ہے۔ یہ بھی فرض کر لیا گیا ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا متواتر و مسلسل استعمال ان کے ضمیر کو قطعی طور پر تاریک نہیں بناتا۔

گوہر شخص تجربے کی بنا پر جانتا ہے کہ شراب اور تمباکو سے انسان کے دل و دماغ کی ہئیت تبدیل ہو جاتی ہے، ان چیزوں کے استعمال سے ان افعال پر شرم محسوس نہیں ہوتی، جن پر ہوش کی حالت میں ہونی چاہیئے۔ ضمیر کی ہر چٹکی پر انسان کسی مدہوش بنانے والی چیز کی طرف رجوع کرتا ہے۔ نشے کی حالت میں اپنی زندگی اور اپنے حالات کا اندازہ نہیں کر سکتا، منشیات کا باقاعدہ اور مسلسل استعمال وہی نفسیاتی خلل پیدا کرتا ہے جو ان کا غیر معتدل اور بے قاعدہ استعمال پیدا کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو جو تمباکو اور شراب اعتدال سے پیتے ہیں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ منشیات اپنے ضمیر کو کند بنانے کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ صرف ذائقے اور فرحت کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔

لیکن ان لوگوں کو غیر جانب دارانہ طریقے پر بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرنا چاہیئے۔۔۔ ایسے نہیں سوچنا چاہیئے گویا سر کی بلا ٹال دی گئی ہے بلکہ اس کو سمجھنا چاہیئے۔ اولاً یہ کہ جب منشیات زیادہ مقدار میں باقاعدہ استعمال کی جائیں تو ضمیر کو کند بنا دیتی ہیں تو ان کا تھوڑی مقدار میں باقاعدہ استعمال بھی ایسے ہی نتائج پیدا کرتا ہوگا، ثانیاً یہ کہ تمام منشیات، ضمیر کو کند بنانے کی خاصیت رکھتی ہیں، دونوں حالتوں میں ان کی یہ خاصیت برقرار رہتی ہے، خواہ ان کے اثر کے تحت ایسے الفاظ زبان پر آئیں، یا ایسے احساسات دل میں پیدا ہوں جو ہوش کی حالت میں پیدا نہیں ہونے چاہیئے تھے اور ثالثاً یہ کہ اگر چوروں، ڈاکوؤں اور ویشیاؤں کو اپنے ضمیر کند کرنے کے لئے منشیات کی حاجت ہوتی ہے تو ان لوگوں کو بھی جو اپنے ضمیر کے خلاف کوئی کام یا پیشہ اختیار کرتے ہیں (خواہ یہ کام اور پیشے آپ کے نزدیک بڑے باوقار اور موزوں ترین ہوں) ان چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

مختصر الفاظ میں ہم اس حقیقت سے ہر گز ہر گز انکار نہیں کر سکتے کہ منشیات کا استعمال خواہ وہ تھوڑی مقدار میں اور باقاعدہ ہو، یا زیادہ مقدار میں اور بے قاعدہ، اونچے طبقے میں ہو یا نچلے طبقے میں، صرف ایک ہی ضرورت کے ماتحت عمل میں آتا ہے اور وہ ضرورت ضمیر کی آواز کو دبانے کی ہے تاکہ راستے میں کوئی حائل نہ ہو۔

(۳)

صرف ان چند الفاظ میں منشیات و مسکرات اور تمباکو (جو عام پیا جاتا ہے اور جو سب سے زیادہ مضرت رساں ہے) کے عالمگیر استعمال کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ تمباکو تازگی بخشتا ہے، خیالات کو صاف کرتا ہے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف ایسے ہی مبذول کرتا ہے جیسے دوسری چیزیں اور یہ کہ شراب کے مانند اس کا ضمیر پر کچھ اثر نہیں پڑتا، لیکن اگر بڑے غور سے ان حالتوں کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے جن میں تمباکو پینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ضمیر پر تمباکو کا وہی اثر ہوتا ہے جو شراب کا ہوتا ہے، اگر تمباکو واقعی تازگی بخشنے یا خیالات صاف کرنے والا ہوتا تو اس کی شدید طلب ہر گز ہر گز پیدا نہ ہوتی۔ ایسی طلب جو خاص خاص مواقع پر نمودار ہو اور لوگ یہ ہر گز ہر گز نہ کہتے کہ ہم بھوکے رہ سکتے ہیں، لیکن تمباکو ضرور پئیں گے۔

اس باورچی نے جس نے اپنی مالکہ کو قتل کر دیا تھا، کہا تھا کہ جب کمرۂ خواب میں داخل ہو کر اس نے بڑھیا کے گلے پر چھری پھیر دی اور خون کے فوارے چھوٹنے لگے تو اس کی ہمت، اس کی طاقت جواب دے گئی، ’’میں اپنا کام پوری طرح ختم نہ کر سکا۔‘‘ اس نے عدالت میں بیان دیا، ’’ چنانچہ کمرے سے باہر نکل کر میں نے سگریٹ سلگایا۔‘‘ سگریٹ پی کر اور خود کو مدہوش کرنے کے بعد وہ اس قابل ہوا کہ واپس جا کر بڑھیا کے سر کو تن سے جدا کر دے، ظاہر ہے کہ اس وقت اس کے دل میں سگریٹ پینے کی خواہش اس لئے پیدا نہ ہو ئی کہ وہ اپنے خیالات کو صاف کرنا چاہتا تھا یا فرحت حاصل کرنا چاہتا تھا، بلکہ اس وقت اس کو اپنی وہ چیز کند بنانا تھی، جو اس برے کام کی تکمیل سے روک رہی تھی۔

ہر تمباکو نوش تھوڑے سے غورو فکر کے بعد معلوم کر سکتا ہے کہ ایسے خاص لمحات آتے ہیں جب وہ خود کو تمباکو سے مدہوش بنانا چاہتا ہے، ان دنوں کو پیش نظر رکھ کر جب میں تمباکو پیا کرتا تھا، آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں، جب مجھے اس کی طلب محسوس ہوا کرتی تھی۔ عام طور پر میں ایسے لمحات میں تمباکو پیا کرتا تھا جب کسی بات کی یاد کو فراموش کر دینا چاہتا تھا۔ جب میں کسی چیز کو بھول جانا چاہتا تھا یا سرے ہی سے غور و فکر کرنا نہیں چاہتا تھا۔

میں بے کار بیٹھا ہوتا تھا۔ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ مجھے کام کرنا ہے، لیکن چونکہ میں ایسے ہی بے کار بیٹھا رہنا چاہتا تھا اس لئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔ میں نے کسی کے ساتھ وعدہ کیا ہوتا تھا کہ میں اس کے یہاں پانچ بجے ضرور آؤں گا لیکن جب یہ وعدہ پورا نہ ہوتا تو اس کے احساس کو بھلانے کے لئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔ طبیعت میں چڑچڑے پن کے باعث میں اگر کسی کو ناخوشگوار کلمات کہہ دیتا تو اس غلطی کے احساس کو دور کرنے کے لئے پائپ سلگا لیا کرتا تھا۔ تاش کھیلنے کے دوران میں اگر میں توقع سے زیادہ رقم ہار جاتا تو تمباکو پینا شروع دیتا تھا۔ مجھ سے اگر کوئی بری حرکت سرزد ہو جاتی تھی اور اس کا اعتراف کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا تو پائپ پینے لگ جاتا تھا اور دوسروں کو قصور وار ٹھہرانا شروع کر دیتا تھا۔

کوئی مضمون لکھتے وقت اگر مجھے پوری طرح تسکین حاصل نہیں ہوتی تھی اور ہونا یہ چاہیئے تھا کہ میں لکھنا ترک کر دوں، لیکن میں زبردستی اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا تھا، اس لئے میں تمباکو نوشی شروع کر دیتا تھا۔ کسی سے گفتگو کرتے وقت اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی بات کو نہیں سمجھ رہے، لیکن چونکہ میں اپنی رائے کا اظہار جاری رکھنا چاہتا تھا، اس لئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔

تمباکو اور دوسری مدہوش بنانے والی چیزوں میں یہ امتیازی فرق ہے کہ اس کے ذریعے ہم بڑی آسانی کے ساتھ خود کو مدہوش بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا بظاہر بالکل بے ضرر اور نقل پذیر ہونا ہے۔ افیم بھنگ اور شراب وغیرہ استعمال کرنے کے لئے ابتدائی تیاریاں کرنا پڑتی ہیں اور دیگر لوازمات کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر تمباکو ہر وقت جیب میں رکھا جا سکتا ہے اور اس کے پینے کے لئے اور لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شراب اور گانجا پینے والوں کو دیکھ کر عام طور پر لوگ ہیبت زدہ ہوجاتے ہیں، لیکن تمباکو پینے والے اس قسم کی کیفیت پیدا نہیں کرتے۔ لوگ ان سے دور ہٹنے کی کوشش نہیں کرتے۔

شراب افیون اور گانجا وغیرہ تمام حسیات پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ اثر دیر تک قائم رہتا ہے مگر تمباکو سے ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جو آپ کو نہیں کرنا چاہیئے تو آپ سگریٹ پی کر خود کو بقدر ضرورت مدہوش بنا لیتے ہیں، اس کے بعد آپ پھر ہوش میں آجاتے ہیں اور اچھی طرح سوچنے لگتے ہیں۔ یا فرض کر لیا جائے کہ آپ نے کوئی ایسا کام کیا ہے، جو آپ کو نہیں کرنا چاہیئے تھا تو آپ سگریٹ پیتے ہیں اور اس غلطی کے احساس کو مٹا کر کوئی اور کام کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تمباکو نہ کسی طلب کو پورا کرنے کے لئے اور نہ وقت کاٹنے کے لئے پیا جاتا ہے، بلکہ صرف اپنا ضمیر کند بنانے کے لئے پیا جاتا ہے اور کیا ان تمام امور سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کی زندگی اور اس کے دل میں تمباکو پینے کی خواہش کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے۔

لڑکے کب تمباکو پینا شروع کرتے ہیں۔۔۔؟ عام طور پر اس وقت جب وہ اپنے بچپن کی معصومیت کھو دیتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے جب انسان اپنی زندگی کے اخلاقی راستوں پر گامزن ہوتا ہے تو وہ تمباکو کی عادت ترک کر دیتا ہے اور جب ان راستوں سے ہٹ جاتا ہے تو پھر تمباکو پینا شروع کر دیتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ سب قمار باز تمباکو کے عادی ہوتے ہیں؟ وہ عورتیں جو ہموار زندگی بسر کرتی ہیں، کیوں بہت کم تمباکو پیتی ہیں؟ ویشیائیں اور دیوانے سب کے سب تمباکو کے عادی کیوں ہوتے ہیں۔۔۔؟ عادت عادت ہے، لیکن تمباکو نوشی یقیناً ضمیر کو کند بنانے والی خواہش سے متعلق ہے اور اس سے یہ خواہش پوری ہوتی ہے۔

عام طورپر کہا جاتا ہے (میں خود بھی یہی کہا کرتا تھا) کہ تمباکو پینے سے دماغی کام اچھی طرح ہوتا ہے، اگر ہم دماغی کام کی مقدار کو پیش نظر رکھیں تو یہ بیان بلاشک و شبہ صداقت پر مبنی ہے۔ وہ شخص جو تمباکو پیتا ہے اور جو انجام کار اپنے خیالات کو جانچنے اور پرکھنے کی قوت کھو دیتا ہے، عام طور پر یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے دماغ میں واقعی بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ در اصل بات یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنے خیالات پر قابو نہیں رہتا اور وہ غلط نتیجہ مرتب کر لیتا ہے۔

جب آدمی کام کرنے لگے تو اسے اپنے اندر دو وجودوں کا احساس ہوتا ہے۔ ایک وہ وجود جو کام کرتا ہے اور دوسرا وہ جو جانچتا رہتا ہے۔ یہ جانچ جس قدر کڑی ہوگی، اسی قدر کام سست رفتاری سے، مگر اچھا اور پختہ ہوگا اور اگر یہ جانچ پڑتال کمزور ہوگی تو کام جلدی مگر خام ہوگا۔ جب کام کرنے والے پر مدہوشی طار ی ہوتی ہے تو کام کی مقدار بڑھ جاتی ہے، مگر اس میں اچھائی پیدا نہیں ہوتی۔

لوگ عام طور پر کہتے ہیں، ’’اگر میں تمباکو نہ پیوں تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ شروع کرتا ہوں مگر لکھ ہی نہیں سکتا۔۔۔‘‘ میں بھی یہی کہا کرتا تھا، لیکن سوچنا یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ میرا خیال یہ ہے کہ اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ لکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں، پھر یہ ہونا چاہیئے کہ آپ کے شعور میں لکھنے کی خواہش ابھی تک خام ہے، اس کی صرف دھندلی سی صورت آپ کی نظروں کے سامنے آ رہی ہے۔ جس کی خبر آپ کے اندر والا نقاد بشرطیکہ وہ مدہوش نہ ہو، آپ کو پہنچا دیتا ہے، اگر آپ تمباکو نہ پئیں تو آپ یقیناً یا تو لکھنے کا خیال ہی چھوڑ دیں گے یا پھر اس دھندلے خیال کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ پختگی اختیار کرئے اور آپ کی نظروں کے سامنے صحیح شکل میں آ جائے۔ لیکن اگر آپ نے تمباکو پی لیا تو آپ کے اندر والا نقاد مدہوش ہو جائے گا اور وہ روک جو آپ کے راستے میں تھی ہٹ جائے گی۔ تمباکو پینے سے پہلے جو خیال آپ کو بالکل مبہم اور فضول نظر آتا تھا، تمباکو پینے کے بعد اہمیت اختیار کر لیتا ہے، وہ رکاوٹیں جو آپ کے راستے میں حائل تھیں، دور ہو جاتی ہیں۔ آپ لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور زیادہ تیزی کے ساتھ۔۔۔!

(۴)

لیکن کیا معمولی اور حقیر سانشہ جو شراب اور تمباکو کے معتدل استعمال سے پیدا ہوتا ہے، اہم نتائج کا باعث ہوتا ہے؟ اگر کوئی شخص گانجا اور شراب پی کر گر پڑے اور اپنے حواس کھودے تو یقیناً اہم نتائج پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اگر تمباکو اور گانجا وغیرہ تھوڑی سی مقدار میں استعمال کیا جائے جو معمولی نشہ پیدا کرے تو اس سے خطرناک نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔۔۔ یہ بیان عام طور پر سننے میں آتا ہے اور فرض کر لیا گیا ہے کہ معمولی سی مدہوشی برا اثر پیدا نہیں کرتی، یہ تو ایسا ہی ہے، اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ پتھر پر گھڑی کو پٹک دینے سے اس کو نقصان پہنچے گا، لیکن معمولی سا گرد و غبار اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

یہ خیال رکھنا چا ہیئے کہ انسان کی زندگی کو وہ کام حرکت یا اکساہٹ نہیں بخشتا جو ہاتھوں پیروں یا پیٹھ سے کیا جائے بلکہ وہ کام حرکت بخشتا ہے جو ضمیر کرے۔ ہاتھوں اور پیروں سے اگر کوئی کام شروع کیا جائے تو شعوری احساس میں رد و بدل کا ہونا ضروری ہے اور یہی رد و بدل بعد کی حرکات کو واضح اور ممیز کرتا ہے، حالانکہ یہ بالکل معمولی اور ناقابل ادراک ہوتا ہے۔

برولوف (روس کا ایک مشہور و معروف مصور۔ ۱۸۵۲۔ ۱۷۹۹) نے ایک روز اپنے شاگرد کی کھینچی ہوئی تصویر کی اصلاح کی۔ اصلاح شدہ تصویر کو دیکھ کر شاگرد ایکا ایکی بول اٹھا، ’’آپ نے برش سے صرف چھوٹے چھوٹے نشان بنائے لیکن اس میں جان پیدا کر دی۔‘‘ برولوف نے جواب دیا، ’’آرٹ وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے یہ چھوٹے چھوٹے نشان شروع ہوتے ہیں۔‘‘ برولوف کا کہنا بالکل درست ہے۔ صرف آرٹ ہی کے بارے میں نہیں بلکہ تمام زندگی پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ ہم بلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ صحیح زندگی کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے، جہاں سے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ہوتا ہے، جہاں ہمارے قیاس کے مطابق ناقابل ادراک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اصل زندگی وہاں بسر نہیں کی جاتی جہاں بڑے بڑے خارجی انقلاب آتے ہیں، جہاں لوگ چلتے پھرتے ہیں، لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔۔۔ بلکہ وہاں بسر کی جاتی ہے جہاں بالکل ننھی ننھی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ننھی ننھی تبدیلیاں۔۔۔ لیکن ان ہی سے نہایت ہولناک اور نہایت اہم نتائج وابستہ ہوتے ہیں۔ کسی کام کا ارادہ کرنے سے لے کر اس کے کر گزرنے تک بہت سی مادی تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔۔۔ گھر کے گھر تباہ و برباد ہو سکتے ہیں، دھن دولت کا ستیاناس ہو سکتا ہے اور انسانوں کی غارت گری عمل میں آ سکتی ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم چیز وہ ہے جو انسان کے شعور میں چھپی ہوئی ہے۔ امکان یعنی ہو سکنے کی تحدید شعور ہی کرتا ہے۔

شعور کے اندر چھوٹی سے چھوٹی تبدیلی بھی ناقابل قیاس نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو سکتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، اس کا انسان کی اختیاری قوت یا عقیدہ جبر یعنی جبریت سے کوئی تعلق ہے۔ اس پر بحث کرنا بالکل فضول ہے۔ اس سوال کا فیصلہ کئے بغیر کہ آیا انسان اپنی خواہش کے مطابق کام کر سکتا ہے یا نہیں (یہ سوال میرے نزدیک درست نہیں ہے) میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب انسانی سرگرمیاں اور شعور کی خفیف ترین تبدیلیاں لازم و ملزوم ہیں تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے (ہم اختیاری قوت کی موجودگی کو تسلیم کریں یا نہ کریں) کہ ہم خاص طور پر ان حالات کا جائزہ لیں جن کے تحت یہ خفیف ترین تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کوئی چیز تولتے وقت ہمیں ترازو کے پلڑوں کا خاص طور پر دھیان رکھنا پڑتا ہے۔

ہمیں حتی الامکان اس بات کی کوشش کرنا چا ہیئے کہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو ایسے حالات سے دور رکھیں جو خیال کی اس نزاکت اور صفائی پر اثر انداز ہوتے ہوں، جن کے بغیر شعور اپنا کام صحیح طور پر نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں منشیات کا استعمال ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ اس لئے کہ وہ ضمیر و شعور کے کام میں رخنہ اندازی کرتا ہے۔ چونکہ انسان بیک وقت روحانی اور حیوانی مخلوق ہے، اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی ان اشیاء سے متاثر ہو جائے جو اس کی روحانی فطرت پر اثرانداز ہوتی ہیں اور کبھی ان اشیاء سے متاثر ہو جائے جو اس کی حیوانی فطرت پر اثر انداز ہوتی ہیں جیسا کہ کلاک سوئیوں کے ذریعے سے بھی متحرک ہو سکتا ہے اور بڑے پہیے کے ذریعے سے بھی حرکت میں آ سکتا ہے۔ جس طرح بہتر صورت یہ ہے کہ کلاک کو اس کی اندرونی مشینری کے ذریعے سے منضبط کیا جائے۔ ٹھیک اسی طرح انسان خود کو ضمیر باشعور ہی کے ذریعے سے باضابطہ بنا سکتا ہے۔

(۵)

لوگ وقتی طور پر اداسی دور کرنے کے لئے یا فرحت حاصل کرنے کے لئے شراب نہیں پیتے اور نہ وہ ا س لئے پیتے ہیں کہ یہ خوش گوار شے ہے بلکہ اپنے اندر اپنے ضمیر کی آواز غرق کرنے کے لئے پیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بہت ہولناک نتائج برآمد ہوتے ہوں گے۔ ذرا اسی عمارت کے نقشے کا تصور کیجئے جس کی دیواریں اور کونے ضروری آلات کی مدد کے بغیر تیار کئے گئے ہوں گے۔ کیا ایسی عمارت پائیدار ہو سکتی ہے؟ لیکن لوگ پھر بھی اپنے آپ کو مدہوش کرتے ہیں۔ جب زندگی ضمیر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی تو ضمیر کو توڑ مروڑ کر اس کے ساتھ منضبط کر دیا جاتا ہے۔

ضمیر کو مدہوش بنانے کی صحیح اہمیت معلوم کرنے کے لئے آپ اپنی زندگی کے ہر دور کے روحانی لمحات کو پیش نظر ر کھیئے۔ آپ کو یاد آ جائے گا کہ ہر دور میں آپ کے سامنے کوئی نہ کوئی اخلاقی سوال تھا، جس کو آپ حل کرنا چاہتے تھے اور جس کے حل ہونے سے آپ کی زندگی کی بہتری وابستہ تھی۔ اس سوال کو حل کرنے کے لئے توجہ کے اجتماع و ارتکاز کی ضرورت تھی، ہر محنت و مشقت سے متعلقہ کام کرنے میں اور خاص طور پر اس کے شروع کرتے وقت ا یسے لمحات آتے ہیں، جب یہ مشکل اور تکلیف دہ معلوم ہوا کرتا ہے اور جب انسانی کمزوری یہ خواہش پیدا کرتی ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے۔ جسمانی کام تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے اور دماغی کام اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے، جیساکہ ژونگ کہتا ہے کہ لوگ عام طور پر اس وقت سوچنا بند کر دینا چاہتے ہیں، جب کوئی خیال مشکل محسوس ہوتا ہے، لیکن میں کہوں گا کہ یہیں جہاں سے یہ مشکل شروع ہوتی ہے، سوچنا یعنی غور و فکر بارآور ہونا شروع ہوتا ہے۔

جب آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پیش نظر سوالات کے تصفیے پر محنت صرف ہوگی جو عام طور پر تکلیف دہ ہوتی ہے تو اس کے دل میں اس الجھن سے نجات حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اگر اس کے پاس خود کو مدہوش بنانے والے ذرائع نہ ہوتے تو وہ اپنے ضمیر سے ان سوالات کو کبھی خارج نہ کر سکتا، جو اس کے درپیش تھے، لیکن چونکہ اس کو ایسے ذرائع معلوم نہیں جن سے ان خیالات کو بھگایا جا سکتا ہے، اس لئے وہ بوقت ضرورت انہیں استعمال کرتا ہے۔

جونہی حل طلب سوالات اس کو دق کرنا شروع کرتے ہیں، دکھ دینے لگتے ہیں، وہ جھٹ سے ان ذرائع کی طرف رجوع کرتا ہے اور ان تکلیف دہ سوالوں کی پیدا کردہ پریشانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ضمیر ان سوالوں کا حل طلب کرنا بند کر دیتا ہے اور یہ غیر حل شدہ سوال آئندہ روحانی لمحات تک غیر حل شدہ رہتے ہیں اور جب یہ لمحات آتے ہیں تو پھر وہ انہی ذرائع کو استعمال کرتا ہے اور انجام کا ر وہ اپنی زندگی اسی طرح گزار دیتا ہے اور اخلاقی سوالات جو اس کے درپیش تھے، ویسے کے ویسے حل طلب رہتے ہیں۔ حالانکہ ان سوالات کے حل ہونے ہی میں زندگی کی ساری حرکت پوشیدہ ہے۔ ایسے لوگوں کی مثال بالکل اس انسان کے مانند ہے، جو گدلے پانی کے پاس کھڑا ہو اور اس کے اندر داخل ہو کر موتی نکالنے سے گھبراتا ہو، چنانچہ بار بار جب کہ پانی پرسکون اور شفاف ہونے لگے تو وہ اسے ہلا کر پھر گدلا بنا دے۔

اگر آپ اس زمانے کو پیش نظر رکھیں جب آپ تمباکو اور شراب پیا کرتے تھے یا دوسرے پینے والوں کے متعلق اپنے تجربے پر نظر کریں تو آپ کو منشیات کے عادی لوگوں اور منشیات سے پرہیز کرنے والوں کے درمیان ایک مستقل منقسم لکیر نظر آئے گی۔ لوگ جس قدر زیادہ منشیات کو استعمال کریں گے، اسی قدر وہ اخلاقی طور پر غیر حساس ہوتے چلے جائیں گے۔

(۶)

جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے افیم اور گانجا کے نتائج بڑے ہولناک ہوتے ہیں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں پکے شرابیوں کے لئے شراب نہایت مہلک نتائج کا موجب ہوتی ہے اور اس سے زیادہ شراب، بیئر، تمباکو وغیرہ کا معتدل استعمال جو بالکل بے ضرر سمجھا جاتا ہے، ہماری سوسائٹی کے لئے ہولناک نتائج کا باعث ہوتا ہے۔ نتائج فطری طور پر ہولناک اور خطرناک ہونے چاہئیں، اس حقیقت کے پیش نظر کہ سوسائٹی کی معاشرتی، فکری، سائنٹیفک، ادبی اور فنی سرگرمیاں زیادہ تر ان لوگوں سے متعلق ہیں جو غیر معتدل ہوتے ہیں یعنی جو شراب پیتے ہیں۔

عام طور پر فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو کھانا کھانے کے بعد شراب پیتے ہیں دوسرے روز کام کے اوقات میں بالکل ٹھیک اور معتدل حالت میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ وہ لوگ جو شراب، بیئر یا کسی اور نشیلی چیز کے ایک دو گلاس پیتے ہیں، دوسرے دن ان پر غنودگی کی حالت طاری ہوتی ہے اور وہ خود کو اداس اداس محسوس کرتے ہیں جس کا بالآخر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ان کی دماغی پژمردگی اور ناتوانی کو تمباکو نوشی اور بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ تمباکو اور شراب کو اعتدال کے ساتھ استعمال کرنے والے اگر اپنے دماغ کو اصلی حالت میں لانا چاہیں تو کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوگا مگر ایسا شازو نادر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوتا ہے (خواہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں کے سر پر ہو، جو حکومت کرتے ہیں یا دوسروں کو سبق دیتے ہیں۔ خواہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں سے متعلق ہو، جو محکوم ہیں اور دوسروں سے سبق لیتے ہیں) سنجیدہ و متین حالت میں نہیں ہوتا۔

اگر میں یہ کہوں کہ ہماری زندگیوں کے انتشار اور ان کے ضعف کا باعث مدہوشی کی وہ مستقل حالت ہے، جس میں کہ اکثر لوگ رہتے ہیں تو آپ اسے مذاق نہ سمجھیئے گا، اگر لوگ مدہوشی کی حالت میں نہ ہوں تو ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے، کیا کسی کے وہم و گمان میں آ سکتا ہے، ایفل ٹاور بنانے سے لے کر فوجی ملازمت اختیار کرنے تک۔ کسی ضرورت کے بغیر ایک کمپنی بنائی جاتی ہے، سرمایہ اکٹھا کیا جاتا ہے، لوگ محنت و مشقت کرتے ہیں، حساب لگاتے ہیں، اسکیمیں تیار کرتے ہیں۔ لاکھوں ٹن لوہا ایک منار بنانے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ اس مینار کی تعمیر دوسرے لوگوں کے دلوں میں اس سے بڑے میناربنانے کی خواہش پیدا کرتی ہے، ذرا غور فرمایئے کیا صحیح دماغی حالت میں ایسی فضول باتیں سوجھ سکتی ہیں؟

ایک اور مثال لیجئے۔ یورپی اقوام کئی برسوں سے ایسے عمدہ طریقے ایجاد کرنے پر غور و فکر کر رہی ہیں جن سے انسانوں کو ہلاک کیا جا سکے اور لاکھوں نوجوانوں کو بالغ ہونے کے ساتھ ہی قتل و غارت کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اب بربری لوگوں کے حملوں کا کوئی خطرہ نہیں رہا، لیکن یہ جنگی تیاریاں، متمدن و مہذب اقوام عمل میں لاتی ہیں، جو عیسائی مذہب رکھتی ہیں اور پھر وہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں کرتی ہیں۔۔۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ تکلیف دہ، ضرر رساں، سکون شکن، تباہ کن اور اخلاق و ادراک کے خلاف ہے، لیکن اس کے باوجود سب باہمی قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ بعض سیاسی تدبیریں سوچتے ہیں کہ کیسے، کس کس کے ساتھ مل کر اور کس کو تباہ و برباد کرنا چا ہیئے، بعض ان لوگوں کی تنظیم کرتے ہیں جن کو قتل و غارت گری کے سبق دیے جا رہے ہوتے ہیں، بعض اپنے ضمیر، اپنے ادراک اور اپنی مرضی کے خلاف قتل و غارت کی ان تیاریوں کے سامنے اپنا سر جھکا دیتے ہیں۔ کیا متین و سنجیدہ لوگ ایسا کر سکتے ہیں؟ صرف شرابی ہی ایسے کام کر سکتے ہیں جو سنجیدگی و متانت کی صحیح حالت تک کبھی نہیں پہنچتے۔

میرا خیال ہے کہ آج سے پہلے لوگ کبھی ایسی زندگی بسر نہیں کرتے تھے۔ جس میں ضمیر اور افعال کے درمیان اس قدر فاصلہ ہو کہ انسانیت ایک جگہ گڑ گئی ہے۔ رک گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی خارجی سبب نے اسے فطری حالت اختیار کرنے سے روک رکھا ہے جو اسے من حیث العلت اختیار کرنا چاہیئے تھا اور یہ سبب۔۔۔ اگرچہ یہ اکیلا ہی نہ ہو، یقیناً جسمانی طور پر خود کو مدہوش کرتا ہے اور یہ سب سے بڑا سبب ہے جس کے ذریعے سے لوگ اپنے آپ کو دن بدن کمزور اور ضعیف بنا رہے ہیں۔

انسانیت کی تاریخ میں وہ دن قابل یادگار ہوگا جب اس خطرناک برائی سے نجات حاصل کی جائے گی اور وہ دن دور نہیں، اس لئے کہ اس برائی کے نتائج سے لوگ اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں۔ مدہوش بنانے والی اشیاء کے متعلق لوگوں کا نظریہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے اور ان اشیاء کے خطرناک نقصانات سے لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے ہیں۔ اب وہ دن بہت نزدیک ہے، جب یہ بیداری لوگوں کو ان مدہوش بنانے والی چیزوں سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا دے گی اور ان کی آنکھیں کھول دے گی تا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطالبات دیکھ سکیں اور ان پر غور کر سکیں۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.