لپٹ وہ زلف کی جاں بخش اور وہ پیاری رات
Appearance
لپٹ وہ زلف کی جاں بخش اور وہ پیاری رات
بسر ہوئی کبھی ایسی بھی ساری ساری رات
کہاں وہ بستر دیبا حصیر کہنہ کہاں
کجا امیروں کی راتیں کہاں ہماری رات
فراق یاد میں گزرا ہے جیسے سارا دن
یوں ہی کٹے گی بصد آہ و بے قراری رات
اداس شام سے بیٹھے ہیں چارہ گر سارے
ضرور ہے ترے بیمار غم پہ بھاری رات
سحر کے پہلے ہی اے شادؔ سو رہوں گا میں
ستا کے مجھ کو اٹھائے گی شرمساری رات
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |