لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
Appearance
لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
ہماری آرزو ٹپکی لہو سے
یہ ہے کس کا سویم پوچھا عدو سے
کہ دم ہے ناک میں پھولوں کی بو سے
وہ بچہ پرورش کرتی ہے الفت
جو پیکاں پوروے کی طرح چوسے
یہ ٹوٹے گی ہوائے گل سے واعظ
مری توبہ کو کیا نسبت وضو سے
اسے کہتے ہیں قمری طوق الفت
چھری لپٹی ہوئی ہے یاں گلو سے
یہ تاثیر محبت ہے کہ ٹپکا
ہمارا خوں تمہاری گفتگو سے
وہ ہیں کیوں حسن کے پردہ پہ نازاں
یہ سیکھا ہے ہماری گفتگو سے
کیا ہے دامن محشر کو افشاں
اڑے چھینٹے یہ کس کس کے لہو سے
سنا ہے جام تھا جمشید کے پاس
ارے ساقی فقیروں کے کدو سے
وہ شرمیلی نگاہیں کہہ رہی ہیں
ہٹا دو عکس کو بھی روبرو سے
لب گل رنگ پر ہے خال مشکیں
مگس اور پھول کی پتی کو چوسے
بیاںؔ خوف گنہ سے مر چکے تھے
مگر جاں آ گئی لا تقنطو سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |