لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے
Appearance
لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے
سیکڑوں خون ہوں ہر گام پہ تلوار چلے
ناتوانی نے انہیں دریا پہ جانے نہ دیا
اٹھ کے سو بار گرے راہ میں سو بار چلے
تیرا کوچہ ہے وہ اے بت کہ ہزاروں زاہد
ڈال کے سبحہ میں یاں رشتۂ زنار چلے
اے شہ حسن مکدر نہ ہو گر تیرا مزاج
خاک اپنی بھی جلو میں پس رہوار چلے
سن کے یہ گرمئ بازار تیری اے یوسف
نقد جاں رکھ کے ہتھیلی پہ خریدار چلے
ہے یقیں حشر میں بھی ایک نیا محشر ہو
اٹھ کے گر کاکل جاناں کے گرفتار چلے
فصل گل آئی اٹھا ابر چلی سرد ہوا
سوئے مے خانہ اکڑتے ہوئے مے خوار چلے
ہوگا احساں پئے گلگشت اگر تو صیاد
ساتھ لے کر قفس مرغ گرفتار چلے
دیر سے بیٹھے تھے مشتاق سخن سب یہ حبیبؔ
دیکھ اٹھتے ہی تیرے بزم سے حضار چلے
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |