لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے
Appearance
لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے
یہ چھیڑ کیا نکالی اے یار بیٹھے بیٹھے
کل وعدہ گاہ میں جب وہ بے وفا نہ آیا
اکتا کے اٹھ گئے ہم ناچار بیٹھے بیٹھے
جو کچھ پڑھا ہے ہم نے ہم آپ ہی آپ اس کی
گھر میں کیا کریں ہیں تکرار بیٹھے بیٹھے
ہم نے تو اس کو ہرگز یارو کہا نہ تھا کچھ
کچھ یوں ہی ہو گیا وہ بیزار بیٹھے بیٹھے
تجھ بن تو ہم نے وے بھی با خامشی ادا کیں
یاد آئیاں جو باتیں دو چار بیٹھے بیٹھے
اے مصحفیؔ انہیں میں صنعت نہیں کچھ اپنی
لکھ ڈالے ہم نے کل یہ اشعار بیٹھے بیٹھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |