Jump to content

مانند شمع بزم پگھلنے کے واسطے

From Wikisource
مانند شمع بزم پگھلنے کے واسطے
by ہاجر دہلوی
332156مانند شمع بزم پگھلنے کے واسطےہاجر دہلوی

مانند شمع بزم پگھلنے کے واسطے
پیدا ہوا ہوں عشق میں جلنے کے واسطے

وہ ناز کر رہے ہیں شب وصل اور ادھر
ارماں تڑپ رہے ہیں نکلنے کے واسطے

بلبل سے کہہ دو شیوۂ فریاد چھوڑ دے
آئیں گے باغ میں وہ ٹہلنے کے واسطے

رونے کو ہجر یار میں آنکھیں عطا ہوئیں
بخشا گیا ہے دل بھی مچلنے کے واسطے

سچ پوچھئے تو عشق میں خود کو بدل لیا
ہم نے خیال یار بدلنے کے واسطے

ہاجرؔ قرار دل کو نہ آیا کسی طرح
کیا کیا کیا نہ اس کے بہلنے کے واسطے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.