Jump to content

مجھے لے چل

From Wikisource
مجھے لے چل
by اختر شیرانی
299354مجھے لے چلاختر شیرانی

مری سلمیٰؔ مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں!
جہاں رنگیں بہشتیں کھیلتی ہیں سبزہ زاروں میں!
جہاں حوروں کی زلفیں جھومتی ہیں شاخساروں میں
جہاں پریوں کے نغمے گونجتے ہیں کوہساروں میں
جوانی کی بہاریں تیرتی ہیں آبشاروں میں
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں
وہ مستانہ بہاریں جن پہ قرباں ارض جنت ہے
جہاں ہر ذرہ اک گہوارۂ موج لطافت ہے
جہاں رنگت ہی رنگت ہے جہاں نکہت ہی نکہت ہے
محبت حکمراں ہے جن کے پاکیزہ دیاروں میں!
مری سلمیٰؔ مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں!
وہ دوشیزہ فضائیں جنتوں کا ہے گماں جن پر
چھڑکتا ہے مئے تسنیم و کوثر آسماں جن پر
لٹاتی ہے سحاب حسن و طلعت کہکشاں جن پر
سرور و نور و نکہت بستے ہیں جن کے ستاروں میں
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں!
جہاں شام و سحر نیلی گھٹائیں گھر کے آتی ہیں!
افق کی گود میں نیلم کی پریاں مسکراتی ہیں!
فضاؤں میں بہاریں ہی بہاریں لہلہاتی ہیں
جہاں فطرت مچلتی ہے لہکتے ابر پاروں میں!
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں!
جہاں چاروں طرف باغ و گلستاں لہلہاتے ہیں
شگفتہ وادیوں میں جنتوں کے خواب آتے ہیں
جہاں معصوم طائر عشق کے نغمے سناتے ہیں
اور ان کا لحن شیریں گونجتا ہے کوہساروں میں!
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں!
حکومت ہے جہاں صدق و صفا و مہر و الفت کی
نشاط و عیش و عشرت کی سرور و لطف و راحت کی
نسیم و انجم و گل کی نوا و نور و نکہت کی!
محبت موجزن ہے جن کے دوشیزہ نظاروں میں
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں نظاروں میں!
جہاں آباد یہ ناپاک شہرستاں نہیں ہوتے
فسادی فتنہ پرور اور ذلیل انساں نہیں ہوتے
یہ انساں ہاں یہ حیواں بد تر از شیطاں نہیں ہوتے
فساد و شر جہاں سوتے ہیں خوابوں کے مزاروں میں!
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں نظاروں میں!
بہشتوں کی لطافت ہے جہاں کی زندگانی میں
مزہ آتا ہے کوثر کا جہاں کے سادہ پانی میں
خدائی حسن عریاں ہے جہاں کی نوجوانی میں!
صداقت کروٹیں لیتی ہے ساز دل کے تاروں میں
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں نظاروں میں!
”حیات دائمی” لکھا ہوا ہے جن کے ایواں پر
ارم زار ابد ہے سایہ زن جن کے خیاباں پر
دوامیت کے جلوے چھا رہے ہیں باغ و بستاں پر
گزر ممکن نہیں ہے موت کا جن کے نظاروں میں
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں نظاروں میں
محبت میں جو ہو جاتا ہے پائندہ نہیں مرتا!
صداقت جس کو کر دیتی ہے تابندہ نہیں مرتا!
ہے جس میں عشق رقصاں وہ دل زندہ نہیں مرتا!
نوائے ”لا فنا” ہے روح کے خاموش تاروں میں
مری سلمیٰؔ! مجھے لے چل تو ان رنگیں نظاروں میں!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.