مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں
Appearance
مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں
ان کو یہ ضد کہ دکھا دو جو کہیں ہوتے ہیں
ان کو ہم سے ہے تعلق نہ ہمیں ان سے غرض
اب یہیں ہوتے ہیں شکوے نہ وہیں ہوتے ہیں
ان سے بچ جائے جو ایماں تو غنیمت سمجھو
خوش نگاہوں میں بہت رہزن دیں ہوتے ہیں
لاکھ وہ ناز سے ٹھکرائیں عدو کی تربت
یہ عجب بات ہے پامال ہمیں ہوتے ہیں
اب تصور میں بھی تصدیق کا آتا ہے مزہ
جب گماں مٹتے ہیں واللہ یقیں ہوتے ہیں
باتیں پیاری ہیں حسینوں کی ادائیں پیاری
عیب یہ ہے کہ وفادار نہیں ہوتے ہیں
اپنے میخانے کو جنت کا بتاتے ہیں جواب
اتنے بے ہوش خرابات نشیں ہوتے ہیں
اک فقط نام کا ہونا ہے جہاں میں ان کا
نہ مکاں ہوتے ہیں صفدرؔ نہ مکیں ہوتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |