محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے
Appearance
محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے
یہ آئینہ یہاں کہتا ہے کیسی آشنائی ہے
بھلا بوسہ ہم اس سے آج مانگیں گے کسی ڈھب سے
توقع تو نہیں لیکن یہ طالع آزمائی ہے
محبوں کو کریں ہیں قتل دشمن کو جلاتے ہیں
بتوں کی بھی میاں صاحب نرالی ہی خدائی ہے
عجائب رسم ہے ان دلبران دہر کی یا رب
کسی کے ساتھ جا سونا کہیں سائی بدھائی ہے
یہ عاشق اپنے اپنے اشک کو طوفان کہتے ہیں
جو سچ پوچھو تو یہ گنگا ہماری ہی کھدائی ہے
الٰہی کیا بنے گی ساتھ میرے شیخ و واعظ کو
ادھر رندی شرابی ہے ادھر کو پارسائی ہے
نہیں یہ ابر و باراں سوزؔ کے احوال کو سن کر
فلک کی بھی محبت سے یہ اب چھاتی بھر آئی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |