محبت کا تری بندہ ہر اک کو اے صنم پایا
محبت کا تری بندہ ہر اک کو اے صنم پایا
برابر گردن شاہ و گدا دونوں کو خم پایا
برنگ شمع جس نے دل جلایا تیری دوری میں
تو اس نے منزل مقصود کو زیر قدم پایا
بجا کرتے ہیں عاشق طاق ابرو کی پرستاری
یہی محراب دیر و کعبہ میں بھی ہم نے خم پایا
نشانہ تیر تہمت کا ہے میرا اختر طالع
اٹھاؤں داغ میں تو آسماں سمجھے درم پایا
ہزاروں حسرتیں جاویں گی میرے ساتھ دنیا سے
شرار و برق سے بھی عرصۂ ہستی کو کم پایا
سوائے رنج کچھ حاصل نہیں ہے اس خرابے میں
غنیمت جان جو آرام تو نے کوئی دم پایا
نظر آیا تماشائے جہاں جب بند کیں آنکھیں
صفائے قلب سے پہلو میں ہم نے جام جم پایا
جلایا اور مارا حسن کی نیرنگ سازی نے
کبھی برق غضب اس کو کبھی ابر کرم پایا
فراق انجام کام آغاز وصلت کا بلا شک ہے
بہت رویا میں روح و تن کو جب مشتاق ہم پایا
ہر اک جوہر میں اس کا نقش پائے رفتگاں سمجھا
دم شمشیر قاتل جادۂ راہ عدم پایا
ہمارا کعبۂ مقصود تیرا طاق ابرو ہے
تری چشم سیہ کو ہم نے آہوئے حرم پایا
ہوا ہرگز نہ خط شوق کا ساماں درست آتشؔ
سیاہی ہو گئی نایاب اگر ہم نے قلم پایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |