محبت کا جب روز بازار ہوگا
Appearance
محبت کا جب روز بازار ہوگا
بکیں گے سر اور کم خریدار ہوگا
تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن
کبھی یہ قیامت طرحدار ہوگا
صبا موئے زلف اس کا ٹوٹے تو ڈر ہے
کہ اک وقت میں یہ سیہ مار ہوگا
مرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ
کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہوگا
نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں
نہ ہوں گا تو اندوہ بسیار ہوگا
یہ منصور کا خون ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہوگا
عجب شیخ جی کی ہے شکل و شمائل
ملے گا تو صورت سے بیزار ہوگا
نہ رو عشق میں دشت گردی کو مجنوں
ابھی کیا ہوا ہے بہت خوار ہوگا
کھنچے عہد خط میں بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرحدار ہوگا
زمیں گیر ہو عجز سے تو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہوگا
نہ مر کر بھی چھوٹے گا اتنا رکے گا
ترے دام میں جو گرفتار ہوگا
نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میرؔ بھی یاں
جو ہوگا تو جیسے گنہ گار ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |