Jump to content

محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی

From Wikisource
محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی
by مضطر خیرآبادی
308582محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھیمضطر خیرآبادی

محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی
چلو جاؤ بیٹھو کبھی کی بھی تھی

بڑے تم ہمارے خبر گیر حال
خبر بھی ہوئی تھی خبر لی بھی تھی

صبا نے وہاں جا کے کیا کہہ دیا
مری بات کم بخت سمجھی بھی تھی

گلہ کیوں مرے ترک تسلیم کا
کبھی تم نے تلوار کھینچی بھی تھی

دلوں میں صفائی کے جوہر کہاں
جو دیکھا تو پانی میں مٹی بھی تھی

بتوں کے لیے جان مضطرؔ نے دی
یہی اس کے مالک کی مرضی بھی تھی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.