محتاج نہیں قافلہ آواز درا کا
Appearance
محتاج نہیں قافلہ آواز درا کا
سیدھی ہے رہ بت کدہ احسان خدا کا
گر ہے سر دریوزۂ فیض اہل نظر سے
ہو راہ نشیں مرحلۂ فقر فنا کا
خوش نودئی معشوق ہے رنجور ہے عاشق
بے درد ہے وہ خستہ کہ لے نام دوا کا
اس باغ کی نکہت کا ہوں مشتاق کہ ہو جائے
جاتے ہوئے دم بند جہاں باد صبا کا
کوئی نہیں کہتا کہ یہ کس کا ہے کرشمہ
اک شور ہے عیسیٰ کے دم روح فزا کا
جھاڑیں ترے عشاق اسے گرد سمجھ کر
پڑ جائے اگر سر پہ کبھی سایہ ہما کا
تن فرط لطافت سے ہو جب روح مجسم
کیا زور چلے کشمکش بند قبا کا
کب کالبد خاک میں ہو اتنی نزاکت
جو بت ہے وہ پتلا ہے مگر ناز و ادا کا
یوں قتل کرے غمزۂ دلدار کہیں کیا
جوہر نہ کہیں گر مژہ کہ تیغ قضا کا
کیا دانے کی خواہش کہ ہے تاثیر کہ جس سے
ہوتا ہے گزر دام میں مرغان ہوا کا
اسرار حقیقت کا ہو اشعار میں شارح
کیا حوصلہ ہے ناظمؔ آشفتہ نوا کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |