محشر کا ہمیں کیا غم عصیاں کسے کہتے ہیں
محشر کا ہمیں کیا غم عصیاں کسے کہتے ہیں
پلے پہ وہ بت ہوگا میزاں کسے کہتے ہیں
عشاق پھرے دردر ایواں کسے کہتے ہیں
سر بار رہا تن پر ساماں کسے کہتے ہیں
وصل بت مہرو ہے شرب مئے گلگوں ہے
پھر اور عنایات یزداں کسے کہتے ہیں
قیدی رہے وحشت میں بے خود تھے مگر ایسے
یہ بھی نہ کھلا ہم پر زنداں کسے کہتے ہیں
انسان کا بس نفس امارہ مخرب ہے
لاحول ولا قوت شیطاں کسے کہتے ہیں
مہتاب ترے آگے نکلا تو نجومی کو
ثابت نہ ہوا ماہ تاباں کسے کہتے ہیں
بیمار محبت ہیں مر جائیں تو اچھا ہے
قربان اطبا کے درماں کسے کہتے ہیں
کیوں کر نہ ہنسیں سن کر حال دل عاشق کو
کمسن ہیں وہ کیا جانیں ارماں کسے کہتے ہیں
اے واعظو یہ باتیں اچھی نہیں گنجلک کی
کوئی جو کبھی سمجھے ایماں کسے کہتے ہیں
دیکھیں تو خضر تیرے آب دم خنجر کو
معلوم نہیں آب حیواں کسے کہتے ہیں
ہاں دست جنوں سو سو زنجیر کی ٹکڑے ہوں
سنسی کسے کہتے ہیں سوہاں کسے کہتے ہیں
بے یار یہ بادل ہیں دل شام کی فوجوں کے
بوچھار ہے تیروں کی باراں کسے کہتے ہیں
ہم آپ کے گھر آ کر فرمائیے جائیں گے
اچھی رہی لو سنئے مہماں کسے کہتے ہیں
جب دیکھتے ہیں گل کو کہتے ہیں وہ شوخی سے
روتی ہوئی صورت ہے خنداں کسے کہتے ہیں
بے خود خلش غم سے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں
اے دل یہ کھٹک کیا ہے مژگاں کسے کہتے ہیں
دیوار کو زنداں کی پتھرا گئے دیوانے
جس دم یہ خیال آیا میداں کسے کہتے ہیں
آئینے کے ساتھ اپنی صورت انہیں دکھلائیں
دیکھیں تو وہ دونو میں حیراں کسے کہتے ہیں
شہرہ ہے صباؔ اب تو اپنی بھی فصاحت کا
آتشؔ کے مقلد ہیں سحباں کسے کہتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |