محو فریاد ہو گیا ہے دل
Appearance
محو فریاد ہو گیا ہے دل
آہ برباد ہو گیا ہے دل
سینہ کادی میں اپنے ناخن سے
رشک فرہاد ہو گیا ہے دل
دیکھتے دیکھتے ستم تیرا
سخت ناشاد ہو گیا ہے دل
کرتے ہی کرتے تیرے قد کا خیال
مثل شمشاد ہو گیا ہے دل
ہو کے پابند تیرے کاکل سے
سر سے آزاد ہو گیا ہے دل
الفت اہل بیت سے آگاہؔ
حیدرآباد ہو گیا ہے دل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |