مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں
مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں
مرتے ہوئے مرا نہ سوئے قبلہ رو کریں
تھا میں شراب دوست بہت، میری خاک کے
کاسے بنانے چاہئیں کچھ، کچھ سبو کریں
مذکور میرے گریے کا ہو جس جگہ وہاں
اہل نماز جائے تیمم وضو کریں
بانگ ذبیح ہو نہ کبھی آشنائے گوش
کیوں کر ترے شہید فغاں بے گلو کریں
گر تو سنے تو سلسلۂ زلف کے اسیر
شرح نیاز مندی دل مو بہ مو کریں
اس کے دہان تنگ میں جائے سخن نہیں
ہم گفتگو کریں بھی تو کیا گفتگو کریں
طالب ہیں دل سے حسن محبت فزا کے ہم
اس سے زیادہ اور تجھے خوبرو کریں
زنداں میں اس کے ہیں تو کئی بے گنہ اسیر
غالب کہ روز عید انہیں سرخ رو کریں
دعوے میں تیرے عشق کے صادق نہ ہو سکے
شرمندگی سے کیونکہ نہ ہم سرفرو کریں
چرخ ہزار رخنہ کا پیوند کیونکہ ہو
یہ شال وہ نہیں ہے کہ جس کو رفو کریں
کھلوا دو ان کی فصد کہ دیوانے ہیں وہ شخص
جو فصل گل میں میرا گریباں رفو کریں
یہ چاہئے ہے ہم کو کہ ہم سب سے مل چلیں
اے مصحفیؔ کسی کو نہ اپنا عدو کریں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |