Jump to content

مرقع زبان و بیان دہلی/حواشی

From Wikisource

١۔ ١٧٩٤؁ء سے اس کالج کی بنیاد سمجھی جاتی ہےمگر اس وقت صرف عربی، فارسی، دیسی طریق پر اجمیری دروازہ کے باہر پڑھائی جاتی تھی۔ لیکن 1829؁ء سے گورنمنٹ کالج بن کر انگریزی تعلیم بھی شروع ہو گئی۔ مسٹر ٹیلر پرمٹ کے کلکٹر نے اسے سرکاری کالج بنوا دیا جن کے فرزند مسٹر بٹلر، کاربل صاحب پرنسپل کے بعد اس عہدہ پر مقرر ہوئے اور غدر 57؁ء میں کسی حق نا شناس ماتحت کی کج ادائی سے مارے گئے جس سے یہ کالج برباد ہو گیا اور آخر کار وہ حق نا شناس اپنے کیے کے پاس بیٹھا۔ (سید احمد)

٢۔ گارساں دتاسی مراد ہیں۔ (Yethrosh)

[1]۔ دھول دھپّے کی اردو

[2]۔ روزانہ پیسہ اخبار مطبوعہ 23؍ اپریل 1915؁ء میں درج ہے کہ نیو شیل کے متعلق وہاں کے آمدہ سپاہیوں میں سے ایک زندہ دل سپاہی نے اپنی نج کی چٹھی میں یہ پھڑکا دینے والی دلچسپ خبر لکھی ہے کہ جس وقت ہم لوگ جرمن خندقوں میں بے جگری سے بے دھڑک داخل ہوئے تو جرمنوں نے اپنی بندوقیں ہمارے آگے ڈال دیں اور ہاتھ جوڑ کر رام رام کرنے لگے۔ اتنے میں انگریزی سپاہی آ دھمکے اور انھیں قید کر کے صدر چھاؤنی میں لے گئے۔ ان میں سے کسی برطانی افسر نے مسلمان سپاہی سے پوچھا کہ جرمن لوگ گرفتاری کے موقع پر تم سے رام رام کیوں کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ یہ لوگ لفظ رام رام کا ٹھیک مفہوم نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستانی سپاہی اپنے ملک کے اس لفظ کو سن کر ہماری جان بچا دیں گے، اس سبب سے جب ہمارے ملک کے سپاہیوں کو دیکھتے ہیں تو رام رام کی توبہ دھاڑ مچاتے ہیں، جن سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمیں جان سے نہ مارو ۔ ہم ہاہا کھاتے، منہ میں تنکا لیتے اور تمھاری سرن میں آتے ہیں۔ اب ہماری جان بخشی تمھارے ہاتھ ہے۔

لو اب ہم سے از روئے لغت و اصطلاح اس کے معنی سنو۔ اگر چہ یہ لفظ کثیر المعانی ہے مگر یہاں جن جن معانی سے تعلق ہے ہم صرف انھیں کو دکھاتے ہیں۔ لفظ رام رام عام طور پر “باہمی سلام” اور کبھی کبھی صاحب سلامت کے معنی میں آتا ہے مگر اس جگہ توبہ توبہ کے معنی ہیں اور رام دُہائی کا ثبوت دیتا ہے۔ رحم دلانے کے موقع پر اکثر بولا جاتا ہے، یعنی اس رحیم کریم کا خیال کر کے اور اپنے شہنشاہ کا واسطہ مان کر ہمارے اوپر دَیا کرو۔ دیاونت بنو۔ جیسا تمھارا بادشاہ رحم دل اور بے کسوں کا ہمدرد ہے، تم بھی اس وقت ویسے ہی خدا ترس اور درد مند بن جاؤ۔ چونکہ مسلمان سپاہی ہندی اور فارسی زبان سے پورا واقف نہ تھا اور جرمن لوگ فارسی کیا ہندی نیز سنسکرت تک سے خواہ تجارت کے باعث، خواہ علمی مذاق کے سبب کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہیں۔ اس (بقیہ حاشیہ صفحہ ١٤) وجہ سے فارسی اور ہندی دونوں زبانوں کے معنی اس سے پوری پوری مناسبت ظاہر کرتے ہیں۔ ہندی کے معنی ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ اب ذرا فارسی کے معنی سے جو لگاؤ ہے اسے بھی ملاحظہ فرمائیے۔ فارسی زبان میں لفظ رام کے معنی مطیع ، حکم بردار، تابعدار، فرمانبردار اور اطاعت پذیر ہیں، یعنی ہم آپ کی اطاعت قبول کرتے ہیں ایسی صورت میں کہ ہم بے دست و پا کے برابر ہیں۔ ہمارے اوپر آپ جیسے بہادروں کو رحم کرنا چاہیے۔ ہم آپ کی غلامی میں آگئے۔ ہماری جان بخشی اب آپ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ آپ ماریں یا جِلائیں ہم تو اب آپ کے ہو لیے۔ رام رام کی تکرار یعنی مکرر آنے سے اطاعت پر اور زور پڑ گیا۔ یعنی غلام در غلام، مطیع در مطیع ہیں۔ ہمارے نزدیک اس رام رام کے جواب میں ان مردہ دلوں کے واسطے رام رام ست ہے کہہ دینا زیادہ موزوں تھا۔ جائے شکر ہے کہ ہماری انگریزی افواج کے گرفتاروں کی زبان سے حالت اسیری میں بھی اپنی جان بچانے کے واسطے ایسے عاجزانہ کلمے سرزد نہیں ہوئے۔ کجا کہ گڑگڑانا اور ہاہا کھانا۔ ہماری فوج کا اس شعر پر عمل رہا ہے:

مردوں کا نہیں کام ہے آزار سے مرنا


بیروں(1) کی بڑی شان ہے تلوار سے مرنا


1۔ بہادروں، سور بیروں۔

٥۔ عربی ہے

٦۔ ہندی ہے

٧۔ ترکی ہے

٨۔ انگریزی ہے

٩۔ بیگماتی ہندی ہے

١٠۔ صفاتی ہندی ہے جس کے معنی ذائقہ لینے والا عضو ہیں

١١۔ اس کی بڑی بھاری بحث ہم اپنے رسالہ “محاکمہ مرکزِ اردو” میں چھاپ چکے ہیں۔ (سید احمد دہلوی)

١٢۔ یہاں ٹوپی والے نادر شاہی سرخ کلاہ پوش سفاک قزلباش سپاہیوں سے تشبیہ دی ہے۔

١٣۔ یہ کھیل کٹار نما ٹیڑھی چھریوں سے بیٹھ کر یا لیٹ کر کھیلا جاتا ہے۔ بانک کھیلنے کے ہتھیار خنجر، کٹار، چھری، کھوکری، بُجالی وغیرہ تھے۔

١٤۔ جس میں پھری اور ڈھال وغیرہ سے کام نہیں لیا جاتا۔ اس لیے اس کا نام بِن اوٹ رکھا گیا تھا جس کا الف گر کر بنوٹ ہو گیا۔

١٥۔ فن چوب بازی، پٹا بازی،لکڑی بازی یہ کھیل پھری گنگوں سے کھیلے جاتے ہیں۔

١٦۔ بیدانہ جامن، رائے جامن، بھدّو دان جامن، گلاب جامن اس کی قسمیں ہیں۔

١٧۔ صحیح رنگترہ جسے حرف گاف گرا کر رنترہ کر لیا ہے۔

١٨۔ یہ غدر سے دو مہینے پیشتر ایک فقیر صدا لگاتا ہوا آیا تھا اور غدر کے ہو جانے اور اب دار السلطنت بن جانے سے یہ پیشین گوئی سچ ہو گئی۔

١٩۔ بگھیلا ایک مخلوط النسل درندے کا نام ہے جسے فارسی میں پلنگ، ہندی میں لکڑ بھگاّ، باگھ اور تیندوا کہتے ہیں۔ یہ کتوں کو پکڑ کر لے جاتا ہے اور انھیں اپنا کھاجا بناتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا جبڑا سگ گزیدہ کے واسطے اکسیر کا حکم رکھتا ہے اور ہمارا بذات خود آزمودہ ہے۔

نسخہ سگ گزیدہ: مثالاً ایک تازہ نظیر دیتے ہیں۔ ہمارے کاتب کے نوجوان ہونہار لڑکے کو باؤلے کتّے نے کاٹ کھایا۔ وہ اسے کسولی لے گیا، وہاں سے آکر برس روز تک اچھا رہا ۔ برس روز کے بعد پھر ہڑک اٹھی، اس نے کسولی کے اسپتال کو پھر لکھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ جگہ خالی نہیں ہے۔ لڑکے نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ پانی سے ڈرنے اور سگ گزیدہ کی سی حرکتیں کرنے لگا۔ وہ غریب اس پریشانی کے سبب غیر حاضر ہو گیا۔ جب دریافت کیا تو یہ سبب بتایا۔ ہم نے کہا کہ خدا کے حکم سے آج ہی اچھا بچھا ہو جائے تو کتنے بھوکوں کو کھانا کھلاؤگے۔ اس نے جواب دیا کہ اپنی توفیق سے زیادہ یتیموں اور مسکینوں کو کھلاؤں گا۔پسں ہم نے پتا بتا کر اس سے تیندوے کا جبڑا منگوایا۔ جب لے آیا تو کہا کہ اس کے دانت گھس گھس کر تین چار مرتبہ پلاؤ اور مقدار میں چائے کا ایک ایک چمچہ کافی ہے۔ وہ خوش اعتقاد اپنے گھر گیا اور یہی عمل کیا۔ خدا کی عنایت سے دو ہی دفعہ پلانے میں اس نے پانی سے ڈرنا اور اس کا نہ پینا چھوڑ دیا۔ بلکہ غٹ غٹ کر کے پی گیا۔ دوسرے روز پانی سے نہلا دیا اور اس کا باپ اس تندرست کو اپنے ساتھ لکھنؤ لے گیا۔ سید ظہور الحسن صاحب اس کے باپ کا نام ہے۔ اب کتابوں کی تجارت کرتے ہیں۔ غالباً مولوی عبد الحلیم صاحب شرر بھی اس واقعہ سے بخوبی واقف ہوں گے۔ کیونکہ انھیں دنوں میں ان کے ایک مولوی دوست جو سید ظہور الحسن صاحب کے بھائی ہیں، اس جگہ موجود تھے۔ خدا کے فضل سے لڑکا زندہ سلامت اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ یہ نسخہ خیر خواہان و دعا گویانِ حضور نظام خلد اللہ اور ملکہ کے واسطے عام خلائق کی نذر کیا جاتا ہے۔ جن کو آرام ہو وہ حضور کی دوام سلطنت و قیام عمر و دولت کے واسطے دعا مانگیں۔ اگر خطا کرے تو ہم ذمہ دار ہیں۔(سید احمد)

٢٠۔ ساتھ کبوتر بازوں کی اصطلاح میں کبوتروں کی ٹکڑی کو کہتے ہیں۔

٢١۔ کبوتر بازوں کی اصطلاح میں پٹیت اس کبوتر کو کہتے ہیں جس کے گلے میں طوق اور باقی رنگ یکساں ہوتا ہے۔

٢٢۔ بھڑیاں وہ ہیں کہ کبوتروں کو “کو” کہہ کر اڑایا اور فوراً “آ” کہہ کر بٹھا لیا۔

٢٣۔ تاوا وہ ہے کہ ٹکڑی کو ہنکایا اور ٹکڑی نے اپنے مکان کا چکر لگا کر آگے بڑھنا چاہا مگر کھلاڑی نے اسی جگہ سے بلا لیا۔

٢٤۔ ساتھ کو دور تک جانے دینا اور پھر بلا لینا۔

٢٥۔ زفیلنا بمعنی سیٹی دینا، سیٹی بجانا ہے۔ زفیل عربی میں زفیر تھا۔ فارسی میں سپیل جس کا معرب صفیر ہو گیا۔ اردو والوں نے زفیر کو زفیل کر لیا۔

٢٦۔ ایران کے ایک شہر کا نام جہاں کے اولیاء اللہ مشہور ہیں۔ چنانچہ شمس الدین سبزوار جن کا مزار ملتان میں ہے، وہیں کے رہنے والے ہیں۔ محمد عماد حسن بن سلطان علی سبزواری نے ہی 1014؁ھ میں حضرت امیر خسرو کے مزار مبارک کا گنبد تعمیر کرایا تھا۔

٢٧۔ بادشاہ کا تکیہ کلام جیسے میاں یا پیارے وغیرہ اولاد کو کہہ کر بات چیت کرتے ہیں۔ بادشاہ امّا کہہ کے خطاب کیا کرتے تھے۔ در اصل ارے میاں کا مخفف ہے۔ سید احمد

٢٨۔ ان کی عالی شان کوٹھی طامس صاحب کی کوٹھی کے نام سے مشہور تھی، مگر اب مٹکاف ہوس کہتے ہیں۔

٢٩۔ بعض لوگ اس کو الور کا بتاتے ہیں۔

٣٠۔ گیو بہ یائے مجہول گودرز ایرانی پہلوان کے بیٹے کا نام ہے جو خود بڑا پہلوان تھا۔

٣١۔ دلاور، پہلوان۔

٣٢۔ یعنی بُھنگا